یہ کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ایک ایسا ملک جس کے بارے میں عالمی ادارے 2030ء تک جی 20 ممالک کے کلب میں شامل ہونے کی پیشن گوئیاں کررہے تھے وہ ملک آج اپنی تاریخ کے خطرناک ترین معاشی موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائرمیں خطرناک حد تک کمی کے باعث درآمدات کو کنٹرول کیا گیا تاکہ ضروری اشیاء کی درآمد متاثر نہ ہو مگر حالات اس قدر گھمبیر ہوچکے ہیں کہ گذشتہ ہفتے کے دوران بینکوں نے سٹیٹ بینک کی اجازت کےباوجود پیٹرول اور خوردنی تیل کی درآمد کیلئے لیٹرآف کریڈٹ ہی نہیں کھولے۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا؟جواب ہے ہرگز نہیں۔
اقتدار کی مسند پر لاڈلوں اور راج دلاروں کو بیٹھانےکیلئے جو بھیانک کھیل کھیلا گیا،اُس کھیل کا یہ نتیجہ ہے کہ 2018ء سے 2022ء کے دوران 23ہزار ارب قرض لینے کے باوجود ملکی معیشت اور سیاست دونوں بند گلی میں جاچکی ہے۔ ایسے میں کچھ ذمہ داران بیرون ملک زندگی سےلطف اندوز ہونے میں مگن ہیں تو کچھ لڑکھڑاتی معیشت اور نظام کو آخری دھکادینے میں مصروف۔ ملک کومضبوط اور عظیم قوم کی تشکیل کے علمبردار عمران خان کی خواہش پر پنجاب اسمبلی تحلیل ہوچکی جبکہ خیبرپختونخواہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تمام ترتیاریاں مکمل ہیں۔ ملک کس سنگین وقت سے گذررہاہے اقتدار کے دیوانوں کو لگتا ہے قطعاکوئی پرواہ نہیں۔معاشی صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ پی ایس او اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ کویت پیٹرولیم کیساتھ دوماہ کیلئے ادھار پرڈیزل اور جیٹ فیول کی خریداری کا معاہدہ ختم ہوگیاہے۔بینکوں نے بھی پیٹرول اور لبریکنٹس کی ایل سی کھولنے سے انکار کردیا ہے۔معاہدے میں توسیع نہ ہونے کے باعث پی ایس او کو کویت پیٹرولیم کو 220ملین ڈالر کی ادائیگی لازم ہوگئی ہے۔پی ایس او کو 10فروری سے 24مارچ کے دوران 220ملین ڈالر کویت پیٹرولیم کو براہ راست اداکرنا ہوں گے۔ اگرچہ دوست ممالک سے ڈیپازٹ اور سرمایہ کاری کے ذریعے 15ارب ڈالر کا انتظام کرنے کا سلسلہ جاری ہے مگر فروری میں غیرملکی ادائیگیوں کا بوجھ بڑی پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ کویت کیساتھ 2ماہ کے ادھار پر ڈیزل اور جیٹ فیول خریداری کا معاہدہ 31دسمبر کو ختم ہوا مگر پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے معاہدے میں بروقت توسیع حاصل کرنےکیلئے کوئی قدم ہی نہ اُٹھایا۔ اب پی ایس او نے ہنگامی بنیادوں پر معاہدے میں توسیع یا رقم کا بندوبست کرنے کی سفارش کردی ہے۔
دوسری جانب پیٹرول کی درآمد میں کمی کےباعث پی ایس او نے ہنگامی اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ پی ایس او نے ملک بھر میں پیٹرول کی سپلائی محدود کرتے ہوئے ڈیلرز کا کوٹہ مقررکردیا ہے۔ ایل سیز نہ کھلنے کےباعث پیٹرول اور لبریکنٹس کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہوچکا ہے۔ رواں ہفتے پیٹرول کی درآمد کیلئے ایل سی نہ کھلنے کے باعث پی ایس او کو مجبورا یہ اقدام کرنا پڑا۔پی ایس او کے بعد دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے بھی وزارت خزانہ اور پیٹرولیم کوخط لکھ دئیے ہیں۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے دوٹوک انداز میں وزارت خزانہ کو آگاہ کیا ہے کہ پیٹرول کی درآمد کیلئے فوری ایل سیز نہ کھلیں تو سپلائی چین ٹوٹ جائے گی۔ سپلائی چین ٹوٹنے سے پیٹرول کی فراہمی معمول پر لانے میں ایک ماہ لگ جائے گا مگر اقتدار کے حصول کیلئے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے والوں کو ذرا احساس بھی نہیں کہ انکے فیصلوں سے چار سالوں میں تباہ حال معیشت کو ٹھیک کرنے کے عمل کو کتنا بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔ دوسری جانب وزیراعلی پنجاب پرویز الہی جاتے جاتے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ ڈال گئے ہیں۔ کفایت شعاری کا دعوی کرنے والی پنجاب حکومت نے من پسند افراد پر کروڑوں کی نوازشات کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پنجاب کابینہ کے آخری اجلاس میں کئی اہم فیصلے کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ اجلاس اس وقت طلب کیا گیا جب وزیر اعلی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے ایڈوائس گورنرپنجاب کو ارسال کرچکے تھے سابق وزیر اعظم عمران خان کی خواہش پر میانوالی کو ڈویژن کا درجہ دے دیدیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ پنجاب کابینہ سے پنجاب حکومت کیلئے 4ماہ کیلئے پرائیوٹ جہاز لیز پر لینے کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ یعنی زرمبادلہ کے ذخائر بہتربنانے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے دن رات کوششیں کرے وفاقی حکومت جبکہ ہم ان کوششوں کو ناکام بنانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔وفاقی حکومت نے سیلاب سے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو کیلئے دنیا کو قائل کرتے ہوئے 9جنوری کو جینیوا میں کامیاب ڈونرز کانفرنس منعقد کی۔ 9ارب ڈالر سے زائد امداد اور لانگ ٹرم قرض کا اعلان ہوا۔ دوست ممالک نے بھی ڈیپازٹ کی رقم بڑھانے کیساتھ 10ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کرنے کا ابھی عزم ظاہر کیا تو دوسری جانب پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے نیا بحران پیدا کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں روس سے خام تیل، پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی خریداری سے متعلق بڑی پیش رفت ہوچکی ہے۔
روس اور پاکستان کے مابین 18تا20جنوری کے دوران فیصلہ کن اجلاس اسلام آباد میں طے پاگیا ہے۔ روسی وزیر توانائی کی سربراہی میں اعلی سطحی وفد 17جنوری کو پاکستان پہنچنے گا۔ اس وفد میں 80سے زائد روسی افسران اور ماہرین شامل ہوں گے۔ روس اور پاکستان کے مابین تجارت کوفروغ دینے اور سی پیک میں روس کی شمولیت کیلئے یہ اجلاس فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔روسی سے فوری طور پر 30فیصد رعایت پر خام تیل اور دیگر توانائی مصنوعات کا طریقہ ہائے کارطے کیا جائےگا۔روس سے سستی توانائی ملنے کی صورت میں سالانہ 2ارب ڈالر زرمبادلہ کی بچت ہوسکے گی۔پاکستانی ریفائنریوں نے روسی خام تیل سے پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار ممکن قراردیدی۔انٹرگورنمنٹل کمیشن کے اجلاس کے دوران ادائیگیوں اور شپنگ کے طریقہ ہائے کاربھی طے کیا جائے گاپنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد خیبرپختونخواہ اسمبلی ک تحلیل کا عمل تو شروع نہیں ہوسکا مگر ملک میں ہرجانب غیریقینی کے سیاہ بادل ایک مرتبہ پھر منڈلانے لگے ہیں۔ کچھ واقفان حال تو تسلی دے رہے ہیں کہ حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے۔ اقتدار کیلئے ہر حد پار کرنےوالے کو “سجی دکھا کر کھبی” ماری گئی ہے۔ سسٹم ڈی ریل نہیں ہوگا۔ تباہ حال معیشت انشاء اللہ جلد بحالی کا سفر شروع کرے گی مگر کرپشن کا خاتمہ،عظیم قوم کی تشکیل اور تبدیلی کےسفر سے نیا پاکستان کا لالی پاپ دینے والوں نے بھی احتساب، قانون اور انصاف کے عمل سے گذرنا ہے۔ دل کو تسلی دینے کیلئے یہ خیال تو چلیں آچھاہے مگر سجی دکھا کر کھبی مارنے کا یہ عمل سیلاب سے تباہ حال لاکھوں لوگوں کو چھتیں،آٹا اور بے روزگاروں کونہ جانے کب روزگاربھی فراہم کرے گا۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں