کالم نگار جاوید چودھری نے ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ طویل ملاقات کے ا حوال میں لکھا :’فوج نے 2020میں نریندر مودی کو پاکستان آنے کے لیے بھی رضا مند کر لیا تھا‘ یہ کارنامہ جنرل فیض حمید کا تھا۔ نریندر مودی 9 اپریل 2021 کو پاکستان آئیں گے‘ مودی ہنگلاج ماتا کے پجاری ہیں‘ یہ سیدھا ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے وہاں دس دن کا بھرت رکھیں گے‘ واپسی پر عمران خان سے ملیں گے۔ان کا بازو پکڑ کر ہوا میں لہرائیں گے اور دوستی کا اعلان کر دیں گے‘ نریندر مودی یہ اعلان بھی کریں گے ہم تجارت بھی کھول رہے ہیں‘ ہم دونوں ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت اور دہشت گردی نہ کرنے کا اعلان بھی کرتے ہیں اور کشمیر کا فیصلہ ہم 20 سال بعد مل بیٹھ کر کریں گے‘
یہ فیصلہ ہو گیا لیکن عین وقت پر شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو ڈرا دیا‘ ان کا کہنا تھا آپ پر مہر لگ جائے گی آپ نے کشمیر کا سودا کر دیا‘ وزیراعظم پیچھے ہٹ گئے اور یوں یہ دورہ کینسل ہو گیا۔
ظاہر ہے کہ یہ ساری کہانی جنرل باجوہ نے کالم نگار کو سنائی اور انہوں نے من وعن لکھ ڈالی۔فروری 2021میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان ہواتو اسلام آباد کے اعلیٰ سرکاری حلقے دونوں ممالک میں بریک تھرو کی توقع کرتے تھے۔ سیزفائر کے اعلان کے محض ایک ماہ بعد یعنی مارچ میں اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں جنرل باجوہ نے کہا: وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھا جائے۔ ان کی طویل تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کی ساری توجہ معیشت کی بہتری پر ہونی چاہیے۔ تنازعات کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیں۔
بھارت میں ان کی تقریر پر سرکاری سطح پر کوئی ردعمل سامنے نہ آیا البتہ میڈیا میں پاکستان مخالف مہم میں کمی آئی۔ بی جے پی کے لیڈروں سے کہا گیا کہ وہ پاکستان مخالف بیانات سے گریز کریں۔البتہ یہ اطلاع عام تھی کہ متحدہ عرب امارات دونوں ممالک کے مابین ثالثی کرارہاہے۔
اگرچہ جنگ بندی کا اعلان فروری میں ہوا لیکن اس سے بہت پہلے وزیراعظم نریندرمودی کے دورہ پاکستان کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے جاچکے تھے۔مثال کے طور پر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے کشمیری لیڈرشپ پر بے پناہ دباؤ ڈالا گیا۔عسکری حکام کا خیال تھا کہ گلگت بلتستان کے الیکشن سے قبل ہی کشمیری لیڈرشپ اسے صوبہ بنانے کی کھلے عام حمایت کا اعلان کرے۔ بلکہ آزادکشمیر اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی حمایت کا اعلان کرے۔
چنانچہ اگست 2020 میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیردفاع پرویز خٹک، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور اعلیٰ عسکری حکام نے مظفرآباد کا دورہ کیا جہاں وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر اور ان کی جماعت کو مستقبل کا نقشہ کار سمجھایا۔ انہیں بتایا گیا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا چین کا مطالبہ ہے اور پاکستان کی اسٹرٹیجک ضرورت بھی ہے۔
ایک اور ڈرامہ چار اگست2020 کو پاکستان کا نقشہ بدل کررچایاگیا۔ وفاقی حکومت نے پاکستان کے ’سرکاری نقشے‘ میں تبدیلی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا ۔مظفرآباد میں کشمیری لیڈرشپ کو اس نقشہ کی اہمیت سمجھائی گئی۔میڈیا پر اسے ایک بڑی کامیابی قراردیا گیا۔مظفرآباد میں وفاق کے نمائندوں کو یاددلایا گیا کہ پاکستان کا سرکاری موقف ہے کہ ریاست جموں وکشمیر متنازعہ خطہ ہے ۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔
پاکستان اس کو اپنے نقشہ میں دکھاکر بھارت کی نقالی کررہاہے۔ اس طرح وہ اپنے اصولی موقف سے انحراف کا مرتکب ہوجائے گا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتاہے۔
بعدازاں اسلام آباد میں مقتدر قوتوں کی کشمیری لیڈرشپ کے ساتھ ستمبر اور اکتوبر 2020میں کئی ایک طویل نشستیں ہوئیں جن کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ وہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی حمایت کریں۔ دباؤ اس قدر شدید تھا کہ کئی ایک رہنماؤں نے دبے لفظوں میں اس کی حمایت بھی کردی۔جنہوں نے اختلاف کی جسارت کی انہیں پس منظر میں دھکیل دیاگیا۔
لیکن اکثر کشمیری لیڈروں نے کہا کہ آپ کو جو کرنا ہے کریں لیکن ہمیں اس ’جرم ‘ میں شریک نہ کریں۔پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر کی لیڈرشپ پر اس قدر دباؤڈالا گیا کہ انہوں نے گورننگ باڈی کا اجلاس طلب کرکے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچائے بغیر گلگت بلتستان کو سیاسی، قانونی اور انتظامی اختیارات دینے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگلے دن پارٹی صدر کو مجبوراً کہنا پڑا کہ انہیں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں۔کیونکہ مقتدر ہستیوں کی اس بیان تشفی نہیں ہوئی تھی۔
کشمیر ی لیڈ رشپ کو خطرہ تھا کہ پسپائی کا جو عمل شروع ہوا ہے وہ رکنے والا نہیں۔ اسی دوران آزادجموں وکشمیر کی موجودہ ہیئت کو تبدیل کرنے کا ایک منصوبہ بھی طشت ازبام ہوا۔ایک ایسا مسودہ قانون آزادکشمیر اسمبلی سے پاس کرانے کی کوشش کی گئی جسے کشمیری سیاسی لیڈرشپ خودکشی سے تعبیر کرتی تھی۔ کہا گیا کہ آزادجموں وکشمیر کے آئین سے ریاست کا نام نکال دیا جائے۔یہ تجویز بھی زیر بحث رہی کہ تیرویں ترمیم کے ذریعے سے حاصل انتظامی اور مالیاتی اختیارات وفاقی حکومت کے سپرد کردیئے جائیں۔کشمیر کونسل کو بے پناہ مالی، انتظامی اور آئینی اختیارات تفویض کرنے کی تجویز بھی نان پیپر میں دی گئی۔آزادکشمیرکی سیاسی جماعتوں اور فعال طبقات نے اس طرح کے اقدامات کی ڈٹ کر مخالفت کی اور انہیں ناقابل قبول قراردیا۔ پاکستان میں سیاسی بحران کی بدولت یہ نان پیپر پس منظر میں چلے گئے اور خطرہ ٹل گیا۔
آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت درکارہوتی ہے چنانچہ گلگت بلتستان کے الیکشن سے محض دو ماہ قبل جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے شہباز شریف، بلاول بھٹو، شیری رحمان،خواجہ آصف اور احسن اقبال سے ایک مشاورتی نشست کی۔ ملاقات میں گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے پر اتفاق کیا گیا تاہم شہبازشریف اور بلاول بھٹو نے تجویز دی کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد یہ کام نئی اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے تاکہ پی ٹی آئی الیکشن میں اس کا کریڈٹ نہ لے سکے اور صوبہ بنانے کے تحریک گلگت اسمبلی کرے۔
آزادکشمیر میں سردار عبدالقیوم نیازی کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو چیف سیکرٹری کی طرف سے حکومتی اہداف کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی قرارداد کی حمایت اور تیرویں ترمیم کے خاتمے کو حکومتی ترجیحات میں سرفہرست دکھایاگیا۔متوقع عوامی ردعمل کا ادراک کرتے ہوئے سردار عبدالقیوم نیازی نے جنرل فیض سے کہا کہ اگر ہم نے یہ قرارداد منظور کرلی تو پی ٹی آئی کی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔ قوم پرست جماعتوں کی حمایت میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔ کشمیری پاکستان سے مایوس ہوجائیں گے۔ چنانچہ صوبہ کا نام لیے بغیر آزادکشمیر اسمبلی نے گلگت بلتستان کی حکومت کو تمام اختیارات دینے کی حمایت کی ایک قرارداد پاس کی۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اورمسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے اعلیٰ سطحی رابطوں، دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے درمیان تبادلہ خیال کا کوئی بھی ذی ہوش شخص مخالف نہیں ہوسکتا لیکن اس کیلئے ایک ماحول اور فضا تیار کرنا پڑتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد عمران خان کی حکومت پر الزام تھا کہ وہ کشمیر کا ’’سودا‘‘ کرچکی ہے۔ کشمیری بھی پاکستان کے ناکافی ردعمل سے ناخوش اور مضطرب تھے۔ دوسری طرف بھارت کشمیری لیڈر شپ کو رتی بھر رعایت دینے کو تیار نہ تھا۔ ا س پس منظر میں اگر مودی پاکستان آبھی جاتے تو اس دورہ کا انجام واجپائی اور مودی کے دورہ لاہور سے مختلف نہ ہوتا۔ ان دونوں مواقع پر نوازشریف نے عسکری قیادت اور دیگر جماعتوں کی لیڈرشپ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا لہٰذا دونوں انی شیٹو بری طرح فلاپ ہوگئے تھے۔فوجی لیڈرشپ نے ان کی مخالفت کی اور سیاسی جماعتوں نے نوازشریف کو برا بھلا کہا۔ پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں زبردست گرم جوشی پید ا کی۔ کشمیریوں کو بھی بڑی حد تک راحت ملی لیکن ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ محترمہ بے نظیر بھٹو، نوازشریف اور قاضی حسین احمد آن بورڈ نہیں تھے۔ کچھ اخباری انٹرویوز اور رپورٹس کے مطابق بے نظیر اور نوازشریف دونوں نے بھارت کو پیغام بھیجا کہ وہ مشرف کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کریں کیونکہ انہیں عوامی تائید حاصل نہیں ۔ جماعت اسلامی نے بھی ڈٹ کر مخالفت کی ۔حتیٰ کہ یہ موقع بھی ضائع ہوگیا۔
جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے وسیع البنیاد مشاورت سے گریز کرکے نوازشریف والی غلطی دہرائی۔ وہ بھول گئے کہ ایسے معاہدوں کی اونرشپ سیاسی لیڈرشپ کے علاوہ اور کوئی نہیں لے سکتا۔ قومی نوعیت کے فیصلوں کو عوام کی عدالت میں پیش کرکے رائے عامہ کے لیے قابل قبول صرف اور صرف سیاسی قیادت ہی کرسکتی ہے۔
عمران خان جانتے تھے کہ اگر مودی پاکستان آتے ہیں اور کشمیر کو بیس برسوں کے لیے سرد خانے میں ڈال دیا جاتاہے تو قوم اس فیصلے کو قبول نہ کرتی۔ وہ سیاست اور تاریخ دونوں میں ’’اچھوت‘‘ بن جاتے۔کشمیر میں انہیں’’ غدار ‘‘کے طور یاد کیا جاتا۔
علاوہ ازیں سیاسی فیصلوں کا اختیار سیاسی لیڈرشپ کا ہے۔ اداروں کا کام ان کی معاونت ہے نہ کہ خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنا۔ اگر مودی کو پاکستان بلانے کا پراسیس عمران خان کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اسے ہٹلر جیسے توہین آمیز القابات سے نہ نوازتے بلکہ قومی سطح پر سازگار ماحول تیار کرتے۔عمران خان بیانیہ بنانے کے ماہر ہیں وہ کسی حد تک عوام کوقائل کرسکتے تھے کہ پاک بھارت دوستی ان کے مفاد میں ہے۔وہ کشمیری لیڈرشپ کے ساتھ بھی مکالمہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہ دی۔
عالم یہ تھا کہ پانچ اگست 2019کے بھارتی اقدامات کے بعد عسکری لیڈرشپ بھارت کے ساتھ مفاہمت اور سیاسی لیڈرشپ ٹکراؤ کی راہ پر گامزن تھی۔اسلام آباد میں سفارت کار راقم الحروف کو بتایا کرتے تھے کہ عمران خان کا بھارت کے بارے میں رویہ سخت گیر اور جنرل باجوہ کا لچک دار ہے۔غیر ملکی مہمانوں کو باجوہ یہ تاثر دیتے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں لیکن عمران خان روڑے اٹکاتے ہیں۔یعنی وہ اعتدال پسنداور صلح جو ہیں۔پرویز مشرف کی طرح۔
اس دورخی پالیسی کے باعث تمام کاوشیں اکارت گئیں۔ مودی پاکستان آئے نہ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو کوئی راحت ملی۔ گلگت بلتستان بھی صوبہ نہ بن سکا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کار میں رتی بھر بہتری نہ آئی۔وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان اقوام متحدہ میں ایک سخت جھڑپ ہوئی۔وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کئی ایک مثبت اشارے دیئے لیکن اب تحریک انصاف انہیں کشمیر کا سودا گر قراردینے پر تلی بیٹھی ہے۔
جنرل الیکشن سر پر کھڑا ہے۔ مہنگائی نے دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ خلق خدا انتقام پر تلی ہوئی ۔ اس سال کے آخر تک پاکستان الیکشن کے ہنگامہ سے نکلے گاتو بھارت کا الیکشن شروع ہوجائے جہاں پاکستا ن اور مسلمانوں کو گالی دینے سے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتاہے۔لہٰذاپاکستان سے مفاہمت یا کشمیر یوں کے ساتھ نرمی کا کوئی سوال ہی نہیں۔
کیا یہ وقت نہیں کہ پاکستان کے ادارے اپنی پالیسی سازی کے عمل کے ہر پہلوپر ازسرنو غور کرکے ان خامیوں کو دور کریں جن کے باعث سیاسی اور عسکری حکام بعض اوقات متحارب پالیسیوں پر گامزن رہتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کی جنگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اب کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے کے بس میں نہیں ۔ اس کے لیے بیک وقت دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے اندر بھی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔مقبوضہ کشمیر میں حالات بہتر کرنا ہوں گے۔ سیاسی لیڈروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور صحافیوں کو جیلوں سے رہا کرنا ہوگا۔سرحدوں پر اعتماد سازی کے اقدامات ناگزیر ہیں۔یہ دیوہیکل منصوبہ ہے۔ اتنا بوجھ اٹھانا اب کسی لیڈرکے بس میں نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں