کشمیر میں بلدیاتی الیکشن، سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

مظفرآباد ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ بخیر وخوبی تمام ہوا۔ 3 اور 8دسمبر تک بل ترتیب پونچھ اور میرپور ڈویژن میں الیکشن کا عمل مکمل ہوجائے گا۔نتائج ملے جلے ہیں لیکن اطمینان کی پہلو یہ ہے کہ الیکشن ہوگئے۔ تمام تر مسائل اور چیلنجز کے باوجود مقامی پولیس اور انتظامیہ یہ الیکشن کرانے میں کامیاب ہوگئی۔
تین دھائیوں بعد ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے راستے میں بہت روڑے اٹکائے گئے۔ آخری دم تک بے یقنی کا ماحول تھا۔چونکہ وفاقی حکومت نے مطلوبہ سیکیورٹی فورس فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا لہٰذا یہ امکان تھا کہ الیکشن کسی بھی وقت ملتوی ہوسکتے ہیں۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے اس الیکشن میں اصل مقابلہ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے۔ تحریک انصاف کو حکومت میں ہونے کی وجہ سے دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ ووٹروں کا رجحان بھی عمومی طورپر حکمران جماعت کی طرف ہوتاہے تاکہ ان کے علاقوں میں کچھ ترقیاتی کام ہوسکیں۔ پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی دوسری بڑی پارلیمانی اور مسلم لیگ تیسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔مسلم کانفرنس اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے پاس بھی قانون ساز اسمبلی کی ایک ایک نشست ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں کے پاس گلی محلے کی سطح پر کارکنان موجود ہیں۔ جماعت اسلامی بھی بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ چھوٹی جماعتیں بھی توقع ہے کہ الیکشن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گی۔
آزادکشمیر میں گزشتہ دو ماہ سے زبردست الیکشن مہم چل رہی ہے۔معروف سیاسی اور سماجی رہنما بھی ان الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ چونکہ الیکشن مقامی سطح پر ہورہے ہیں لہٰذا خواتین بھی کافی سرگرم ہیں۔کئی ایک براہ راست الیکشن میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کے مطابق انتخابات میں 10 ہزار 556 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ 12.5 فیصد نشستیں خواتین اور 12.5 فیصد نوجوانوں کے لیے مختص ہیں۔ان نشستوں پر بعد میں بالواسطہ الیکشن ہوگا۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 2,950,129 ہے۔ جن میں 1,383,100 خواتین بھی شامل ہیں۔ 5357 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ یونین کونسلوں کی کل تعداد 278 اور وارڈز کی تعداد 2,086 ہے۔ مجموعی طور پر 2,364 افراد ضلع کونسل اور وارڈز کے لیے منتخب ہوں گے۔الیکشن مہم کا سرسری جائزہ یہ بتاتاہے کہ سارا بحث ومباحثہ مقامی مسائل پر ہورہاہے۔ امیدواروں نے اپنی اپنی وارڈ کی ترقی کا منشور پیش کیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ منتخب کونسلر اپنے علاقوں میں کچھ نہ کچھ کام کرانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
وفاقی حکومت کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی وجہ سے سکیورٹی کے مسائل درپیش تھے لہٰذا انہوں نے آزادکشمیر کی سکیورٹی فراہم نہیں کی۔ اب چونکہ لانگ مارچ ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا فوری طور پر وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ پونچھ اور میرپور ڈویژن میں الیکشن کے لیے سکیورٹی فراہم کرے تاکہ وہاں امن امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ ہوسکے تو ایک ہی دن دونوں خطوں میں الیکشن کرالیے جائیںتاکہ اپوزیشن کے اعتراض بھی رفع ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن کبھی بھی نہ ہوتے کہ اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان چٹان کی طرح اپنے فیصلہ پر کھڑے نہ ہوتے۔ انہوں نے صرف بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا بلکہ بعد میں الیکشن سبوتاژ کرانے کے ہر حربے کو کو سختی کے ساتھ مسترد کیا۔ انہوں نے ہی الیکشن کمیشن کو حوصلہ دے کر کھڑا کیا۔الیکشن کمیشن نے بھی حدبندیوں اور سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو دور کرنے کے حوالے سے متحرک کردار ادا کیا۔ بلکہ بھرپورکوشش کی کہ کسی طرح الیکشن ہوجائیں۔ مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے الیکشن میں تاخیر کرانے کی ہر کوشش کو الیکشن کمیشن نے ناکام بنایا۔
وزیراعظم سردار تنویرالیاس خان ابتدائی عرصے میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے۔ روایتی سیاست دانوں نے ان کے گرد کامیابی سے گھیرامارلیا تھا۔ لیکن جلد ہی انہوں نے ادراک کیا کہ الیکشن کرائے بغیر چارہ نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ساری توانائی اور صلاحیت الیکشن کرانے پر لگادی۔وفاقی حکومت نے سیکیورٹی فراہم نہیں کی اس کے باوجود الیکشن کرانا بڑے دل گردے کا کام تھا ۔ انہوں نے یہ چیلنج قبول کیا اور سرخ رو ہوئے۔ غالباً مورخ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اور وزیراعظم تنویر الیاس کا سب سے بڑا کارنامہ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہی قرار دے گا۔ سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی الیکشن کے لیے سیاسی فضا ہموار کی۔ قانونی رکاوٹیں دور کیں۔ اور اسے ایک عوامی مطالبہ بنایا۔صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے بطور پی ٹی آئی کے صدر اس مطالبے کو الیکشن مہم کا حصہ بنایا اور بعد میں الیکشن کرانے میں مثبت کردار ادا کیا۔انہوں نے ہر مرحلے پر بلدیاتی الیکشن کرانے کی حمایت کی۔
درپردہ قومی سلامتی کے اداروں کو بہت بھڑکایا گیا کہ بلدیاتی الیکشن سے قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ قوم پرست سیاسی منظرنامہ پر چھا جائیں گے۔ پاکستان کے خلاف سیاسی فضا بن جائے گی۔لہٰذا وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے الیکشن ملتوی کرائیں لیکن وہ اس فریب میں نہ آئے۔ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کی انہوں نے حوصلہ افزائی کی۔
موجودہ بلدیاتی ایکٹ موجودہ دور کی ضروریات سے میل نہیں کھاتاہے۔ بلدیاتی اداروں پر حکومت کا کنڑول بہت زیادہ ہے۔ خیبر پختون خوا یا پھر پنجاب کی طرز پر انہیں کشمیر میں بھی بااختیار بنانے کے لیے منتخب کونسلروں کو زبردست لابنگ کرنا ہوگی۔ انہیں باہم متحدہوکر ترقیاتی فنڈز میں اپنا حصہ رکھوانا ہوگا تاکہ شہریوں کی خدمت کرسکیں۔اسی طرح انتظامی اختیارات کے لیے بھی دوڑدھوپ کرنا ہوگی۔ امید ہے کہ ان الیکشن سے ہر گاؤں اور شہر میں ایک تازہ دم لیڈرشپ ابھرے گی ۔جو رفتہ رفتہ کشمیر کی سطح پر اپنا مقام بنائے گی۔لیڈرشپ کا موجودہ بحران ختم ہوگا ۔ تعلیم یافتہ، نوجوان اور تجربہ کار سیاستدان ہمیشہ بلدیاتی نظام سے ابھرے ہیں۔ اس لیے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ لیڈرشپ بھی ابھرے اور شہری خدمات کی فراہمی کا سلسلہ بھی آسان سے آسان تر ہوسکے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں