کھیل سے کھلواڑ تک سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

سینیٹر محمد اسحاق ڈار ہجویری کی پاکستان آمد کیساتھ ہی سیاست اور “کراچی گروپ” کی صفوں میں بھونچال آگیا ہے۔ مخلوط وفاقی حکومت کیخلاف برسرپیکار چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سب سے زیادہ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران احتساب کے نام پر انتقام اور پولیٹیکل انجینرنگ نے ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے مگر پھر بھی ناعاقبت اندیش انوکھا لاڈلہ ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔

انتقام اور ماورائے قانون اقدامات کےباوجود ذاتی خواہشات کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوپارہی۔ حتمی معرکے کے دوران اعلان کیا گیا کہ “اسحاق ڈار کو آپ کا بھائی عمران خان روکے گا” مگر قدرت کے بھی اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ انسانی تدبیریں اور سازشیں ایک مقررہ حد کے بعد ہمیشہ اُلٹ ثابت ہوئی ہیں۔ گذشتہ روز امریکی سائفر سے متعلق سابق وزیراعظم عمران خان اورانکے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی آڈیو لیک اچانک سامنے آگئی جس میں عمران خان کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ‘‘اب ہم نے صرف کھیلنا ہے۔امریکا کا نام نہیں لینا’ بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں’’۔عمران خان کے یہ الفاظ اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ گذشتہ دس سالوں کے دوران تبدیلی کے نام پر ملک کو کرکٹ گراؤنڈ اور قوم کو تماشائی بنادیا گیا ہے۔ عمران خان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کی اس حکمت عملی اور دھمکیوں نے ملک کو کس قدر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ عمران خان کی پشاور میں خطاب کے دوران دھمکی کے باوجود چشم فلک نے دیکھا کہ چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اسحاق ڈار سے بطور سینیٹر حلف لیا اور اگلے ہی روز حلف لینے سے انکار پر شہرت حاصل کرنے والے صدرمملکت عارف علوی نے سینیٹر محمد اسحاق ڈار سے بطور وفاقی وزیر حلف لے کر نفرت اور انتقام کو دفن کرنے کی سعی کر ڈالی۔

اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں کی سخت ناقد ماہرین معیشت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی رہنما نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے پائے گئے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہی پاکستان کو درپیش حالیہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور ڈالر کو لگام ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر پارٹی اور ذاتی مفاد کے پیش نظر اعتراف سے سبھی گھبراتے ہیں۔نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ’ ہارٹ اسٹون پراپرٹیز’کیو ہولڈنگز’ کیونٹ ایٹن پلیس’ کیونٹ سویلین لمیٹڈ’ کیونٹ لمیٹڈ’ فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ’ کومبر ان کارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی۔ ان تحقیقات کے دوران کرپشن کے ثبوت نہ ملے تو ریفرنس آمدن سے زائد اثاثوں پر دائر کردیا۔ نیب کے مطابق اسحٰق ڈار نے 10 سال تک انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کئے جبکہ اسحاق ڈار نے سپریم کورٹ میں اور ہرفورم پر ثابت کیا کہ انہوں نے تمام سالوں کی ٹیکس ریٹرن فائل کی ہوئی ہیں۔ یہاں تک یہ ٹیکس ریٹرن کا ریکارڈ نیب میں بھی موجود تھا مگر ملک میں چونکہ انوکھے لاڈلے کا ملک میں کھلواڑ کرنا مقصود تھا لہذا اسی بنیاد پر نیب کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا گیا۔ مگر اس کےباوجود ماضی میں ملک کو معاشی بحران سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے اور ملک کو جی 18 ممالک کی فہرست میں لانے میں کوشاں وزیر کو جھوٹے مقدمے میں الجھا کر ملک وقوم کیساتھ ناانصافی کی گئی۔

2017ء میں پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی تھی ۔جس رفتار سے معیشت آگے بڑھ رہی تھی پاکستان سال 2023ء تک دنیا کی 18ویں بڑی معیشت بن جاتا۔ کم شرح سود کے ساتھ ترقی کی شرح بلند تھی۔ میکرو اکنامک انڈیکیٹر بلند سطح پر تھے۔ کم مہنگائی کے ساتھ زرِمبادلہ ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر اور سب سے بڑھ کر ملکی کرنسی مستحکم تھی۔ مگرملک کو کرکٹ گراؤنڈ کی طرح تصور کرکےشروع کیا گیا سیاسی کھیل جب کھلواڑ میں بدلا تو سب کے ہوش ٹھکانے آگئے مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ کراچی کے بااثر گروپوں اور چند مالیاتی اداروں نے ملک میں غیر یقینی سیاسی صورتحال اور اناڑی پن کا خوب فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ عالمی مالیاتی اداروں کا بھی اعتماد اٹھنے لگانتیجتا ڈالر 250روپے تک پہنچ گیا۔ ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر کڑی رکھے ہوئے ایک صاحب بصیرت کا مسلسل کہنا تھا کہ یہ سسٹم نہیں چلے گاچونکہ اس سارے نظام میں بدنیت اور ظلم شامل ہے۔ اسحاق ڈٓار نے جس دن واپسی کا سفر شروع کیا اسی دن سے ڈالر کی قدر میں کمی آنا شروع ہوجائے گی۔ مہنگائی کا طوفان اسی وقت کنٹرول ہوگا جب وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے والاکراچی گروپ کے اثرورسوخ سے آزاد ہوگا۔ ایسی جرات اور حکمت عملی کا مظاہرہ صرف اسحاق ڈٓار ہی کرسکتے ہیں۔ گذشتہ تین دنوں کے دنوں انٹربینک میں ڈالر تقریبا 7روپے نیچے آچکا جس سے ملکی قرضوں کا حجم 1ہزار 400ارب سے زائد کم ہوگیا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی غیریقینی صورتحال اور بلیک مارکیٹنگ ختم ہوچکی ہےجبکہ ابھی نئی اقدامات اور معاشی پالیسی کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔

اسحاق ڈار جب وزیر خزانہ تھے تو سابق وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پرروانہ ایک رپورٹ تیار کیا کرتے تھے۔ اس رپورٹ کے ذریعے مارکیٹ میں عام آدمی کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ پیش کیا جاتا تھا۔ اس پریکٹس کا مقصدیہ تھا کہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کی بدولت کہیں غریب آدمی کا کچن تو متاثرنہیں ہورہا۔ روزگار کے مواقع کس حد تک دستیاب ہیں۔حکومت کو عام آدمی کی فلاح کیلئے مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے۔آج جب قدرت نے اسحاق ڈار کو چوتھی مرتبہ بطور وزیر خزانہ ملک وقوم کو معاشی دلدل سے نکالنے کی ذمہ داری سونپی ہے تو مجھے امید ہے کہ پہلی فرصت میں ماضی کی طرز پر ایسی رپورٹ مرتب کروائیں گے کہ سیلاب سے تباہ حال عوام اورمہنگائی کے ستائے عوام کی اذیتوں کا کم کرسکیں۔اطلاعات ہیں کہ یکم اکتوبر سے عوام کو ریلیف دینے سے متعلق وزارت خزانہ اور متعلقہ وزارتوں میں کام شروع کردیا گیا ہے ۔ اسحاق ڈار ان بینکوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں جنہوں نے روپے کی قدر میں سٹے بازی کرکے بڑے منافع کمائے ہیں۔ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے ازسرِ نو مذاکرات کی تیاری کرچکے ہیں۔اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم سمیت کئی اہم پالیسی فیصلے بھی ہونے جارہے ہیں۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈارکو قدرت نے پاکستان کا چوتھی مرتبہ وزیر خزانہ بننے کا اعزاز اور اہم ترین ذمہ داری سونپ دی ہے جبکہ بنی گالہ میں ٹی وی اسکرین پر حلف برداری کے مناظر دیکھنے والوں نے ایک مرتبہ پھر سُنا کہ میں ‘‘اسے چھوڑوں گا نہیں’’۔خدارا نفرت اور انتقام کا راستہ ترک کرکے ریاست مدینہ کے صرف ایک سُنہری اصول ‘‘عفو ودرگذر’’ پر تو کم ازکم عمل کرلیں’یہی سُنہری اصول آپکی اورملک کی تقدیر سنورنے کا باعث بن سکتاہے۔کاش سب بڑے ماضی کی غلطیوں کو ایک طرف رکتھے ہوئے’نفرت اور تعصب سے بالاتر ہوکر اور کچھ نہیں تو میثاق معیشت ہی کرلیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں