ڈی این اے بدلتا نہیں،سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

اس دفعہ سیلاب بغیر اطلاع کے نہیں آیا بلکہ عالمی اداروں نے اس طرح کے حالات کی پہلے ہی پیش گوئی کررکھی تھی۔
گزشتہ دو دھائیوں میں 173 قدرتی آفات کا پاکستان شکار ہوا۔ حالیہ سیلاب میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کے ابتدائی اندازے کے مطابق ساڑھے چار لاکھ سے زائد مکانات تباہ ہوچکے ہیں۔غالباًیہ تعداد ایک ملین کو بھی عبور کرجائے گا،

جس طرح مزید بارشوں کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ایک ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے۔مالی نقصانات کا اندازہ ابھی تک سامنے نہیں آیا لیکن یہ اربوں نہیں کھربوں میں ہوگا۔خیبر پختون خوا اور سندھ کا سرکاری اور نجی انفرسٹرکچر بری طرح تباہ ہوچکاہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فصلیں لگ بھگ تباہ ہوچکی ہیں۔ وبائی امراض کی لہر الگ سے اٹھنے کو ہے۔خوراک کا ایک نیا بحران ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

قدرتی آفات بالخصوص سیلاب اور زلزلوں کی صورت میں مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے ادارہ جاتی سطح پر کس قدر منظم میکنزم تیار کیا؟ سماجی اور رفاعی اداروں کو کس حد تک متحرک کیا؟ کیا ضلع اور تحصیل کی سطح پر موجود اداروں کے پاس ایمرجنسی کا مقابلہ کرنے کی استعداد اور وسائل ہیں۔این ڈی ایم اے، صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم اے) اور فیڈرل فلڈ کمیشن کی صلاحیتوں کا پول کھل چکا ہے۔ ان اداروں کے پاس بڑے پیمانے پر آنے والی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے نہ وسائل۔
سیلاب کا پانی اگلے چند ہفتوں اتر جائے گا۔ میڈیاروایتی سیاسی ہنگاموں میں ہمیشہ کی طرح دوبارہ کھو جائے گا ۔ سرکار ی ادارے جان چھڑا کر کسی اور سمت سرپٹ دوڑنا شروع ہوجائیں گے۔بے سروسامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے پڑے تین کروڑ پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔

اگر پاکستان میں آج فلاحی اور رفاعی ادارے جنہیں عرف عام میں این جی اوز کہا جاتاہے سرگرم ہوتے تو اربوں ڈالر کے فنڈزدستیاب ہوجاتے اور ہزاروں رضاکار میدان عمل میں اتر چکے ہوتے۔ وہ تیزی کے ساتھ متاثرین تک امداد پہنچانے کا ہنر جانتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے حکام نے مختلف بہانوں سے رفاعی اداروں کا گلا گھونٹ دیا۔رجسٹریشن کرانا، بینک اکاؤنٹ کھلوانا اور مختلف اداروں سے این او سی کا حصول جوئے شیر لانے کے متراف بنادیا گیا ۔ قابل اور رفاعی سرگرمیاں منظم کرنے کی صلاحیتوں سے ملامال لوگ بیرون ملک نقل مکانی کر گئے۔ جہاں وہ عالمی اداروں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں اور بھاری معاوضہ پاتے ہیں۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے نام پر ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خدمت کے جذبے سے سرشار ماہرین کو دیس نکلاسنایاگیا۔دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ عالمی ادارے سرکاری اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔وہ رفاعی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔
مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کے خلاف سیاست دانوں اور نوکر شاہی کے ایکے نے گلی محلے کی سطح پر موجود منتخب لیڈرشپ کا صفایا کردیا۔

سیاستدان اور بیوروکریسی اختیارات اور مالی وسائل میں شراکت دار قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ ملک میں بلدیاتی ادارے اوّل تو ہیں ہی نہیں یا جو ہیں ان کے پاس مالی اور انتظامی اختیارات نہیں ہوتے۔ مقامی رکن قومی اور صوبائی اسمبلی سرکاری افسران کے اشتراک سے ان کا ناطقہ بند کردیتے ہیں۔ یہ ناپاک گٹھ جوڑ تحصیل، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر نئی لیڈرشپ ابھرنے ہی نہیں دیتا ۔موثربلدیاتی ادارے ہوتے تو نکاسی آب کے قدرتی راستوں پر ہوٹل اور آکاش کو چھوتی عمارتیں تعمیر ہوتیں نہ ندی نالوں کے کنارے آبادی کا جم غفیر جمع ہوتا۔کونسلر یا تحصیل ناظم گلی محلے سے لے کر اپنے شہر تک کی صفائی، تعلیم، اور شہری سہولتوں کا خیال رکھنے کا ذمہ دار ہوتاہے۔ رفاعی اداروں کو نیشنل سیکورٹی کے نام پر مفلوج کیا گیااور بلدیاتی اداروں کو سیاست دانوں اورنوکر شاہی نے محض ہوس اقتدار اور مالی وسائل پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے پنپنے ہی نہیں دیا۔چنانچہ آج سوائے فوج کے کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جو دل جمی کے ساتھ آزمائش کی اس گھڑی میں شہریوں کا سہارہ بن سکے۔

اس تلخ حقیقت کو پلے باندھنا ہو گا کہ سیلاب اب کبھی کبھار نہیں بلکہ مسلسل آتے رہیں گے بلکہ ہر سال آئیں گے۔ سرما میں ایسی طوفانی برفباری ہوگی لوگ سائبیریا کے برفانی طوفانوں کو بھول جائیں گے۔ گلوبل وارمنگ کی بدولت گلیشیئر پگھلیں گے۔ نئی نئی جھیلیں وجود پائیں گی۔گلیشیئر پگھلنے سے سیلاب آئیں گے۔ دریائے سندھ کے گردونواح میں پائی جانے والی آبادیوں اور شہروں کے انفرسٹراکچر کو مسلسل خطرات لاحق ہوں گے۔ گلگت بلتستان اور نیلم ویلی کی بلند وبالا چوٹیوں پر منجمد برف ہیٹ ویو کی وجہ سے طوفان برپاکرے گی۔ گزشتہ چند سالوں میں خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں کئی جھیلیں بنی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر آبادیوں کی آبادیوں کو بہا کرلے جاسکتی ہیں۔ سیلاب کے علاوہ ملک کو جن مسائل کا تسلسل کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا، ان میں کم بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی قحط سالی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگا۔ علاوہ ازیں سیلاب اور قحط کی وجہ سے دیہاتوں کے دیہات اور شہروں کے شہر نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ کراچی جیسا عظیم شہر نالائق صوبائی حکومت اور ناکارہ بلدیاتی نظام کی وجہ سے دنیا کے گندے ترین شہروں میں اپنا نام پہلے ہی رقم کرا چکا ہے۔

قدرتی آفات جن کا اس کالم میں ذکر کیاگیا ہے متشکل ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ لیکن ہمارا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ ہم میں سے اکثر کا ڈی این اے کاہلی بے حسی اور محض ذاتی خواہشات کی تسکین کے خمیر سے اٹھا ہے۔ سیلاب اور زلزلے ہمیں بدل نہ سکیں گے کیونکہ ہم بدلنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں