5 اگست بھولے گا نہیں کبھی سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

تین سال قبل 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں وکشمیر پر قبرستان کی سی خاموشی طاری ہے۔ بھارتی حکام مطمئن ہیں کہ روز مرہ کے مظاہرے اور سیاسی سرگرمیاں دم توڑ چکی ہیں۔ آزادی کے حامی تقریباً تمام بڑے سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیاہے یا نظر بند کر دیا گیا ۔ 56 سالہ حریت پسند رہنما یاسین ملک کو چند ہفتے قبل عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
گزشتہ تین برسوں کا شمار کشمیر کی عصری تاریخ کے بھیانک ترین دور میں ہوتاہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور سے بھی بدتر ‘ جہاںسیاسی بے اختیاری ،معاشی بدحالی اور سماجی بے بسی اپنے عروج پر تھی۔ سیّدعلی گیلانی کی میت ان کے خاندان سے چھین لی گئی اور ان کی وصیت کے برعکس رات کی ویرانی میں انہیں دفن کر دیا گیا۔ ایک اور مزاحمتی رہنما اشرف صحرائی پراسرار طور پر انتقال کر گئے۔ اس کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ انہیں جیل میں زہر دیا گیا تھا۔ اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے تحقیقات کرنے کے بجائے ان کے صاحبزادوں اور رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا گیا۔ شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، نعیم خان اور کئی دیگر مقبول رہنماؤں کو من گھڑت مقدمات میں پابندسلاسل کیا گیا ہے۔اسی لیے کشمیری کہتے ہیں کہ انہیں پانچ اگست کا دن بھولے گا نہیں کبھی۔
بھارتی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علمبردار ریاستی اداروں کے جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوںپر تنقید کیاکرتے تھے۔بی جے پی کی حکومت میں ان میں سے اکثر کو غیر معمولی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ حال ہی میںبھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے سول سوسائٹی کو ملک کا دشمن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اس تناظر میں انسانی حقوق کے محافظوں اور آزاد میڈیا والوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی حکام نے اختلاف رائے کو جرم بنا دیا ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اس فسطائی سوچ کاپہلا شکار بن گئے۔دنیا بھر کے احتجاج کے باجود وہ نومبر 2021 سے اب تک دہلی کے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خرم پرویز کو ٹائم میگزین نے 2022 کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ٹائم میگزین کا کہنا ہے کہ ”انہیں (خرم پرویز) خاموش کرنا پڑا کیونکہ کشمیر کے خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ناانصافیوں کے خلاف ان کی آواز دنیا میں گونجتی تھی۔”
کشمیری میڈیا مالکان سے کہا گیا کہ وہ سرکاری نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے کمر کس لیں یا ریاستی غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ چنانچہ سوائے چند ایک کے زیادہ تر میڈیامالکان نے سرکاری بیانیہ پر چلنے کا فیصلہ کیا اور غیر معمولی سیلف سنسر شپ اپنے اداروں پر مسلط کردی ۔سری نگر پریس کلب کومقفل کردیا گیا۔ بعدازاں اسے سرکاری نقظہ نظر سے ہم آہنگ صحافیوں کے سپرد کردیاگیا۔ آزادی سے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے والے صحافی فہد شاہ کو من گھڑت مقدمہ میں پھنسا کر جیل بھیج دیا گیا۔ الجزیزہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں35صحافیوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔کشمیری صحافیوں کو بھارت سے باہر جانے سے روکا جا تاہے۔ حال ہی میں انسانی حقوق اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر لکھنے والے آکاش حسن کو دہلی ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی غرض سے سری لنکا جانے سے روک دیا۔ اس سے قبل ثنا ارشاد مٹو کو بغیر کوئی وجہ بتائے بیرون ملک سفر کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ وہ فوٹو گرافی کی ایک نمائش میں شرکت کے لیے پیرس جا رہی تھیں۔آکاش چوتھے کشمیری صحافی ہیں جنہیں گزشتہ ایک سال کے دوران بین الاقوامی سفر کرنے سے روکا گیا۔ ۔پریس کونسل آف انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری اشتہارات ’لائن‘ اور کوریج کی نوعیت کی بنیاد پر منظور نظر اخبارات کو جاری کیے جا رہے ہیں۔
آزادی کے حامی ڈیجیٹل ایکٹیوزم پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی سختی سے جانچ پڑتال کی جا تی ہے۔ کئی ایک کشمیر ی سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کو بھارتی حکام کے کہنے پر معطل کیا گیا ۔ اس کے باوجود نوجوان اپنی آواز بلند کرنے اور ڈی پلیٹ فارمنگ سے بچنے کے لیے تخلیقی طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں دنیا کو معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔

سماجی اور سیاسی گھٹن اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی گزشتہ تین برسوںمیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے باوجود تشدد میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ۔بھارتی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ کنٹرول لائن پرجنگ بندی، خاردار تاریں اور کثیرالجہتی دفاعی نظام کی وجہ سے لائن آف کنٹرول کے پار سے دراندازی کا خطرہ بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود مقامی عسکریت پسند گروپوں نے خاصی طاقت حاصل کی ہے۔ دار الحکومت سری نگر میں گزشتہ ایک سال میں زبردست خون خرابہ ہوا اس کے باوجود کہ یہاں غیر معمولی سیکورٹی حصار قائم ہے اور خفیہ اداروں کا جال تاحد نگاہ پھیلا ہوا ہے۔
تین سال بیت گئے لیکن پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات کی بحالی کی کوئی امید نظر نہیں آ تی ۔اجیت ڈوول نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ’’ہم اپنے مخالف (پاکستان) کی مرضی سے امن اور جنگ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو ہم فیصلہ کریں گے کہ کب،ا من قائم کریں گے۔‘‘ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ ڈوول سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں بھارتی عوام کو یقین دلاتاہوں کہ ان کا ملک ان علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا کبھی نہیں بھولے گا جو اس وقت پاکستان کے کنٹرول میں ہیں، یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان۔
ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان اور آزادی کی حامی کشمیری جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولنے پر آمادہ نہیں بلکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہاہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں