کرامت بھائ اور میں نے ملتان کے محلہ کمنگراں اور چہلیک میں اپنا بچپن گزارا۔ یہ بہت یادگار، خوشگوار اور زندگی کی رنگا رنگی سے بھر پُور دن تھے۔ میری دادی اُن کی نانی اماں تھیں۔ لیکن ہم اُنہیں وڈی ماء کہتے تھے۔ کئی دہائیوں بعد مُجھے احساس ہوا کہ انگریزی میں بھی اس کا ہم معنی لفظ گرینڈ ماء استعمال ہوتا ہے۔
ہمارے گھر میں اس طرح کے اور نام بھی رائج تھے۔ میری چھوٹی بہن کا نام جہاں تک مُجھے یاد ہے کرامت بھائی نے چھوُنی رکھا تھا۔ چھُونی سرائیکی میں مٹی کے گھڑے پر رکھے گئے ڈھکنےکو کہتے ہیں۔
جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ذہین لوگوں کی روایت کے مُطابق وہ کتابوں میں زیادہ سر نہیں کھپاتے تھے۔ ہم دونوں کو کھیلنے کُودنے کا بہت شوق تھا۔ بچپن اور کس چیز کے لئے ہوتا ہے۔ شاید اُن کی بڑی بہن نے ایک دفعہ ڈانٹا کہ پڑھائ کی پرواہ نہیں کرتے۔ تو اُنہوں نے جواب دیا اللہ سُتیاں سُتیاں نو پاس کریندا ہے۔ اُن کی یہ بات مُجھے بھی پسند آئی اور ہماری کامیابیوں کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ہم نے کامیابی کے پیچھے بھاگنے کا غم نہیں لگایا۔
ہمارے سکول اور محلے نے ہماری تربیت میں والدین کے بعد سب سے اہم کردار ادا کیا۔ محلہ چہلیک میں جن بزرگوں کی ہمسائیگی کا ہمیں شرف حاصل ہوا اُن میں مفتی محمود، عطا اللہ شاہ بُخاری اور علامہ احمد سعید کاظمی شامل تھے۔اُن کے صاحبزادوں سے ہمارے خوشگوار تعلقات قائم ہوئے۔ تیس سال بعد جب ڈاکٹر اختر حمید خان کے خلاف گستاخی رسُول کا جھُوٹا مقدمہ ملتان میں قائم ہوا تو میں ڈاکٹر اختر حمید خان کو مُلتان لے آیا اور اُنہیں کرامت بھائی کے گھر ٹھہرایا۔ بھابی صادقہ کی ٹانگ پر پلاسٹر لگا ہوا تھا۔ لیکن اُنہوں نے کمال مہمانداری سے کام لیا۔ میں اور کرامت بھائی دونوں نے ان بزرگوں کے صاحبزادوں سے مل کر تمام معاملے کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر طارق صدیقی بھی ہمارے ساتھ تھے اور اُنہوں نے ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ڈو زئیر بنا کر ہمیں دیا جس سے کیس کو سمجھانے میں مدد ملی۔ہمارے ان تمام خیر خواہوں نے مقدمے میں گواہ بننے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
ان بزرگوں نے ہمیں آداب اور رکھ رکھاؤ کی تربیت دی۔ علامہ احمد سعید کاظمی کے صاحبزادے پروفیسر مظہر سعید کاظمی کرامت بھائی کے ہم جماعت تھے۔کرامت بھائی جب بھی اُنہیں ملنے جاتے اور علامہ صاحب مریدوں سے مل رہے ہوتے تو اُنہیں فرش پر مُریدوں کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیتے تھے ساتھ ہی بٹھاتے تھے۔1962 میں مولانا مودودی ملتان تشریف لائے تو ہمارے گھر قیام کیا۔ ابا جان نے کرامت بھائی کو مولانا کا افسر مہمانداری مقرر کیا۔ مولانا کی تمام ضروریات پوری کرنا اُن کی ذمہ داری تھی۔ صُبح درس قُرآن میں بھی ہماری تعلیم کا کام ابا نے اپنے ذمہ لیا تھا۔
ہمارا سکول مُلتان کے منفرد سکولوں میں سے ایک تھا اور یہاں کے طالبعلموں نے بہت نمایاں طور پر مُلک میں اپنا نام بنایا۔ سکول کے پرنسپل مرزا مُسرت بیگ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور اُس میں طالب علموں کی دینی تعلیم اور ڈسپلن پر بہت توجہ دی جاتی تھی ۔لیکن ہمارے سکول کے طلباء نے بہت مختلف رستوں کا انتخاب کیا۔اداکار محمد علی ہم سے سینئر طالب علموں میں تھے۔ اصغر ندیم سید چند سالوں کے بعد آئے۔ اور مولانا فضل الرحمان ہم سے جونیئر کلاسوں میں تھے۔ شاہد مُبشر اور تنویر اقبال بھی ہمارے سکول کے روشن ستاروں میں تھے۔
کرامت بھائی کی شخصیت میں بھی ملت ہائی سکول کی تربیت رچی ہوئی تھی اور جو ڈسپلن اور اخلاقی قدریں اُنہوں نے وہاں سیکھیں وہ تمام عُمر اُن کے ساتھ رہیں۔ یہ الگ بات ہے ہم دونوں نے بعد میں کمیونسٹ تحریک میں شمولیت اختیار کر لی لیکن ہماری باغیانہ سوچ کے بیج ہمارے اُستادوں نے ہمیں عطا کئے تھے۔
جب میں کالج میں داخل ہوا تو کرامت بھائی پہلے دن مُجھے کالج لے گئے۔ وہاں کُچھ لڑکے فرسٹ ائر فُول بنانے کے لئے میری طرف لپکے۔ پیچھے سے کرامت بھائی آ رہے تھے اُنہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بیان جاری کیا تو وہ کان لپیٹ کر روانہ ہو گئے۔کرامت بھائی کو نرم طریقے سے سخت لڑائیاں جیتنے میں مہارت حاصل تھی۔
میں کالج میں داخل ہوا تو ہمارے ایک بزرگ نے اصرار کیا کہ میں پری میڈیکل میں داخلہ لے لُوں۔مال بہت ملے گا۔میں فلسفہ، نفسیات، اور لٹریچر پڑھنا چاہتا تھا۔ اس قضیے کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ میں شاندار نمبروں کے ساتھ پری میڈیکل کے تمام مضامین میں فیل ہو گیا۔فلسفہ اور نفسیات کو اُن دنوں بھوکوں مرنے کا نُسخہ سمجھا جاتا تھا۔ سو فیصلہ یہ ہوا کہ میں اکنامکس پزھوں تاکہ بھُوکوں مرنے سے بچ جاؤں۔ کرامت بھائی نے مُجھے اکنامکس پڑھانے کا ذمہ لے لیا تاکہ میں ایک سال میں ایف اے کر لوُں۔ اکنامکس پڑھنے کے باوجود میں مالی معاملات میں خُود کشیاں تو کرتا رہا۔ لیکن پڑھ لکھ گیا-
کرامت صاحب نے پہلے سبق میں مُجھے یہ بتایا کہ اکنامکس ایک ایسی سائنس ہے جہاں چھ ماہرین اکٹھے ہو تو وہ سات رائیں دیتے ہیں۔ اُن کی یہ پیش گوئی آج بھی بڑھ چڑھ کر صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن اُن کی تعلیم سے میں نے ایف اے کر لیا۔ اس دوران وہ سوشل سائنس ریسرچ سنٹر پنجاب یونیورسٹی میں ریسرچ اسسٹنٹ بن گئے۔ اُسی سال پنجاب یونیورسٹی میں بی اے آنرز کا پروگرام شروع ہوا۔ داخلے مُکمل ہو گئے لیکن کرامت بھائ نے کُنڈی لگائی اور میرا انٹرویو کروا دیا۔ انٹرویو میں تمام سوالوں کے غلط جواب دینے کے باوجود شاید میری شکل کی معصومیت اور کرامت بھائی کی قابلیت کا خیال کرتے ہوئے مُجھے داخلہ دے دیا گیا۔
میں نے کرامت بھائی کے کمرے میں رہنا شرُوع کر دیا اور ہاسٹل میں کمرے کے لئے درخواست دے دی۔ مُجھے ایک کرائے کے ہاسٹل میں کمرہ الاٹ ہوا اس وعدے کے ساتھ کہ جب بھی نیو کیمپس ہاسٹل میں کوئی کمرہ خالی ہوا مُجھے مل جائے گا۔ مئی 1970 میں پنجاب یونیورسٹی آڈیٹوریم پر سُرخ جھنڈا لہرایا گیا اور 13 طالبعلموں پر اس جُرم پر مقدمہ درج کر کے اُنہیں سمری ملٹری کورٹ میں طلب کیا گیا۔ اُس فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا۔ ہاسٹل میں میرے کمرے پر چھاپہ پڑا لیکن میں وہاں رہتا ہی نہیں تھا کرامت بھائی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس لئے بچ گیا۔ پھر مُقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ مقدمے کے ایک مُلزم منظور اعجاز جب بیساکھیوں کے ساتھ کمرو عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کو مقدمے کی کچی کاروائی کا احساس ہو گیا مقدمہ خارج ہو گیا اور میری جان خلاصی ہو گئی
اس واقعے کے نو سال بعد بھُٹو صاحب کی پھانسی کے بعد مُجھے دوبارہ سمری ملٹری کورٹ میں طلب کیا گیا۔ مُجھے عافیت اسی چیز میں نظر آئی کہ مُلک سے باہر چلا جاؤں۔ کرامت بھائی پی ایچ ڈی کر کے کُچھ عرصہ قبل ہی لوٹے تھے۔ اُنہوں نے مشورہ دیا کہ کوئنز یونیورسٹی کینیڈا میں درخواست دے دو۔میں نے درخواست دی اور مُجھے داخلہ مل گیا۔میں کینیڈا آ گیا-کینیڈا اور امریکہ میں چند سال گزارنے کے بعد میں واپس آیا تو وہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے اور میں نے اسلام آباد میں اپنا ڈیرہ جما لیا۔ وہ اُستاد بن گئے اور میں نے تا عمر طالب علم رہنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک سلسلہ تصوف کی شاگردی اختیار کر لی۔
ہمارے ظاہری اختلاف کے باوجود ہماری اندرونی ایکتا قائم رہی۔ ہمارے راوی کنارے واقع گاؤں سے بھی ہمارا تعلق قائم رہاکیونکہ یہیں سے ہمیں سانجھ کی گھُٹی ملی جو سوشلزم اور لوک راج سے سمبندھ کی شکل میں قائم رہی۔ کرامت بھائی نے بتایا کہ کم و بیش تیس سال بعد جب وہ اپنے گاؤں گئے تو شام کا وقت تھا۔ انُہیں مطلوبہ گھر نہیں مل رہا تھا۔اُنہوں نے لڑکیوں کے سکول کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پوچھا کوئ ہے۔ تو چوکیدار نے دروازہ کھولنے سے پہلے اندر سے پوچھا “واحد بخش دا پتر ایں”۔ وہ سنگتیں آج بھی راوی کنارے سے آئ سی یونٹ میں آکر پُوچھ رہی ہیں” واحد بخش دا پُتر ایں”
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں