Regime Change Conspiracy سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کالم

قومی وعوامی مفاد کے تحفظ کا پُر زوردعوی سابق وزیراعظم عمران خان کے مقابلے میں شاید کسی اورلیڈ ر نے کیا ہو۔ بیانات کا جائزہ لیں تو ہمیشہ گمان ہوتا تھا کہ اب عوامی مفاد کے منافی کوئی بھی قدم ااُٹھانے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے جلد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔مصنوعی بحران پیدا کرنے اور من پسند پالیسی سازی میں ملوث ایلیٹ کیپچر‘‘Elite capture ’’کا ہر منصوبہ اب ناکام بنا دیا جائے گا۔ ویسے دیگر کریڈٹس کیساتھ Elite capture کی ٹرم متعارف کروانے کا کریڈٹ بھی وزیراعظم عمران خان کا ہی ہے۔ ماضی میں جب کبھی بھی بجلی اورگیس کے نرخ بڑھتے تو عمران خان عوامی کے جذبات اور دکھوں کا احساس کرتے ہوئے فوراً حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ ساتھ ہی وجہ بتاتے کہ حکمرانوں کی نااہلی اور بدعنوانی کے باعث عوام کو یہ بوجھ اُٹھاناپڑتا ہے۔ایڈہاک ازم کا خاتمہ اور گڈ گورننس سے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی مگرپونے چار سالوں میں وزارت توانائی سمیت کسی ایک وزارت کا قبلہ تک درست نہیں ہونے دیا گیا مگرجب عمران خان جب اقتدار سے الگ ہوئے تو Regime Change Conspiracy کے نام پر ملک گیر احتجاج اور لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔سوال یہ ہے کہ اقتدار کی مسند پر فائر رہتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان قوم سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے کس حد تک کامیاب ہوئے۔
قارئین آپکو کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان نے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں 21جون 2019کو 11رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس میں ایف آئی اے‘ آئی بی‘ آئی ایس آئی‘ سٹیٹ بنک آف پاکستان‘ ایس ای سی پی اور ایف بی آر سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کمیشن کو 6ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کا ٹاسک دیا تھا تاہم کمیشن نے یہ ٹاسک 9ماہ کی مدت میں مکمل کیا۔رپورٹ میں 2400ارب روپے کے قرضوں میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔دوسری تحقیقاتی رپورٹ قرضہ انکوائری کمیشن نے تیار کی۔ اس رپورٹ کے مندرجات پڑھتے ہوئے دل دہل گیا تھا۔21اداروں سے وابستہ 250افراد کے کردار اورترقیاتی منصوبوں میں اختیارات کا غلط استعمال اورکک بیکس کی نشاندہی کی گئی ہے۔مختلف ترقیاتی منصوبوں سے رقم نجی اکاؤنٹس میں منتقلی کی تفصیلات بھی درج کی گئیں۔قرضہ انکوائری کمیشن نے 420غیرملکی قرضوں کے مکمل ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔
قرضہ کمیشن کی جانب سے قرضوں میں سنگین بے ضابطگیوں کی رپورٹ تیارتو کی گئی مگر پھر ایک دن اچانک سابق وزیراعظم عمران خان نے حکم جاری کیا کہ اس معاملے پر فوری طور پر مٹی ڈال دی جائے بصورت دیگر اُنکے دور حکومت میں لئے جانے والے قرضوں کی ہوشربا تفصیلات سامنے آئیں تو دامن چُھڑانا مشکل ہوجائے گا۔ انکوائری آفیسر نے رپورٹ داخل دفتر کرنے سے انکار کیا تو اُنکے کے خلاف ایسا کیس کھولا گیا کہ عمر بھرکی نیک نامی ایک لمحے میں فن میں ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ان قرضوں کے استعمال اور کچھ شخصیات کا کردار مستقبل میں خوفناک انجام کی نشاندہی کررہا تھا لہذاکئی اداروں کے محنت کو ایک ہی لمحے میں دفن کردیا گیا اور پھر احتساب کے چراغوں کی روشنی ماند پڑگئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان ن مہنگی توانائی اور 2ہزار 500ارب روپے کے گردشی قرضے سے خلاصی حاصل کرنے کیلئے نجی شعبے سے وابستہ بہترین ماہر توانائی تابش گوہر کو ذمہ داری سونپی تھی۔تابش گوہر نے بطور معاون خصوصی برائے پاور بہترین کاردگرگی کا مظاہرہ کیا تو وزیراعظم نے تمام تابش گوہر پیٹرولیم ڈویژن کا بھی اضافی چارج دیدیا۔جون 2020ء میں بدترین پیٹرول بحران پیداہونے کے نتیجے میں ندیم بابر کو گھر بھیج دیا گیا تھا جن کے خلاف ایف آئی اے نے انکوائری کی مگر آج تک ندیم بابر سمیت ذمہ داراں کا بال بھی بیکا نہیں کیا جاسکا۔۔ تابش گوہر نے اس عرصے کے دوران پاور اور پیٹرولیم کے شعبے میں مطلوبہ اصلاحات کا ایک مفصل پلان تیارکیا۔ عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا تو تابش گوہر Elite captureکا سامنا کرنا پڑگیا۔ تابش گوہر نے پاکستانی گیس صارفین سے پیشگی 300ارب روپے وصول کرنے کے باوجود نارتھ ساوتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا ٹھیکہ روسی کمپنی کو دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اپنایا تھا کہ یہ پائپ لائن ہر صورت پاکستان کی سرکاری کمپنیون کو خود تعمیر کرنی چاہیے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ Elite Captureجیت گیا اور تابش گوہر سابق وزیراعظم عمران خان سے سپورٹ نہ ملنے کے باعث استعفی دے کر بیرون ملک چلے گئے۔ وزیراعظم آفس اور وزارتوں میں ایسے ”ماہر کاریگر“تعینات کئے گئے جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد آج منظر سے ہی غائب ہوچکے ہیں او رجنہوں نے ملک وقو م کی خدمت کی کوشش کی اُسے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔سابق وزیراعظم نے گذشتہ روز Regime Change Conspiracy پراظہار خیال کرتے ہوئے ایک تقریب کے دوران الزامات کی ایک مرتبہ بوچھاڑ کردی مگر عمران خان کو اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے کارناموں پر ایک مرتبہ ضرور نظردوڑانی چاہئے جن کے باعث وہ آج وہ وزیراعظم ہاؤس سے فارغ ہونے کے بعد جلسے اور احتجاج کر نے پر مجبورہیں۔
دوسری جانب اآئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی وفاقی حکومت نے آزاد جموں وکشمیر کے ترقیاتی فنڈز بڑھانے کی بجائے 30فیصد سے زائد کٹوتی کردی ہے۔ آزادجموں و کشمیر کے وزیر بلدیات خواجہ فاروق نے اگرچہ آزادکشمیر کوپاکستان کا دفاعی حصارقرار دے کر وفاقی حکومت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر بلدیات خواجہ فاروق کے مطابق وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کے ترقیاتی فنڈز میں کٹ لگا کر حق تلفی کی ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر احسن اقبا ل گمراہ کن بیانات سے حقائق کومسخ کر رہے ہیں۔ ماضی میں جب عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو انہوں نے آزادکشمیر کے ترقیاتی فنڈز میں اضافہ کیا تھا حالانکہ اس وقت مسلم لیگ کے راجہ فاروق حیدر آزادکشمیر کے وزیر اعظم تھے۔ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے وفاقی حکومت کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہو مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کی‘ترقیاتی فنڈز پر کٹوتی کسی صورت نہیں ہونی چاہئے۔ وفاقی حکومت کو اپنے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی فوری طور پر ختم کرنی چاہئے (بشکریہ روزنامہ 92)۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں