سیاست میں تشدد کا استعمال ریاستوں اور معاشروں کو تباہ کردیتاہے۔ سیالکوٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان پر پولیس تشدد اور ان کی گرفتاریوں نے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان پائی جانے والی سیاسی کشمکش کو ایک نئے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ شنید ہے کہ اگلے چند دنوں میں پی ٹی آئی کے سرگرم رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گاتاکہ اسلام آباد مارچ کو ناکام کیا جاسکے جو سیاسی کشیدگی کومزید بھڑکانے کا باعث بنے گا۔ نون لیگ او رپی پی پی عمران خان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔ پی ڈی ایم کے بزرگ رہنما عمران خان کی برق رفتاری اور عوامی بیانیہ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور زرداری صاحب دونوں ڈرائنگ روم سیاست کے ما ہر ہیں لیکن عوام کو متحرک کرنے، شہریوںکے دلوں میں اترے والا بیانیہ بنانے اور لوگوں کو گرم اور سرد موسم میں پارٹی لیڈرشپ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا کرنے صلاحیت سے عاری ہیں۔
پی ڈی ایم والے روزانہ چیخ وپکار کرتے تھے کہ عمران خان نے مہنگائی کردی۔ ایک ماہ کے اندر انہوں نے مہنگائی کاایسا ہوش ربا طوفان اٹھایا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ یہ کہتے تھے کہ خان نے ڈالر سستا کردیا۔ ان کے محض ایک ماہ کے دور اقتدار میں ڈالر دو سو روپے کے قریب جاپہنچابلکہ رل گیا۔ سعودی عرب نے دست تعاون دراز کیا نہ چین نے تجوریوں کے منہ کھولے۔عرب شیخوں نے بھی جھنڈی دکھا دی ۔کہاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرو تو مدد کریں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہیں تو عوام کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور وہ حکمرانوں کے درپے ہوجائیں گے۔
بھارت سے تجارت کی بحالی اصولی طور پر اگرچہ کوئی بری بات نہیں لیکن گزشتہ تین برسوں میں پی ڈی ایم کا نعرہ تھا کہ عمران خان نے کشمیر بیچ دیا ہے ۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت بھارت سے تجار ت بحال کرنے جارہی ہے اور کشمیر کا نام لینا بھی گورا نہیں کرتی ۔ لوگ کیسے سوال نہ پوچھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر پر کتنے بیان جاری کیے گزشتہ ایک ماہ یا کتنے ٹویٹ کیے؟ زیرو۔ پی ڈی ایم نے لوگوں کو جھوٹے خواب دکھائے۔ عوام انہیں اب عمل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو ان کا نامہ اعمال خالی ملتاہے۔
ہمارے سامنے گزشتہ چند ہفتوں میں سری لنکا دیوالیہ ہوگیا۔ شہریوں کو اشیا خوردونوش نہ ملیں تو انہوں نے وزرا پر حملے کرناشروع کردیئے۔ سری لنکن صدر کے بڑے بھائی اور خود دو مرتبہ صدر رہنے والے مہندا راجاپکسے ایک بحری اڈے پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ملک گیر کرفیو کے باوجود مختلف شہروں میں آتش گیر مادے سے حملے جاری ہیں اور کولمبو کے قریب دکانوں اور سابق وزیر اعظم کے بیٹے کی ایک نجی تفریح گاہ کو نذر آتش کر دیا گیا‘‘۔ پاکستان میں حکمران اتحاد بھی مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
پی ڈی ایم بھان متی کا ایک کنبہ ہے لہٰذا طرح طرح کی بولیاں اس کے پلیٹ فارم سے بولی جارہی ہیں۔ پی پی پی اورجمعیت علما اسلام کا موقف ہے کہ سبسڈی ختم نہ کی جائے۔ نون لیگ بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کا مینڈیٹ ہی یہ ہے کہ وہ معیشت کو سنبھالا دیں گے لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ سبسڈی ختم کردی جائے تاکہ سرکاری خزانہ میں کچھ روپیہ جمع ہوسکے اور آئی ایم ایف بھی قرض دینے پر آمادہ ہو۔ اس کے برعکس پی پی پی اور جے یو آئی کو پٹرول بم گرانے سے عوامی ردعمل کا خوف بے کل کیے ہوئے ہے۔ حکمران اتحاد کے اندر پائے جانے والے تضادات اور متحارب سیاسی مفادات بھی اسے متفقہ حکمت عملی اختیار نہیں کرنے دیتے۔
مخمصے کا شکار حکومت اب تشد د اور گرفتاریوں کا سوچ رہی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے قتل کا منصوبہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں مقبول عوامی لیڈروں کوبرداشت نہیں کیا جاتا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو رات کے اندھیرے میں پھانسی کے پھندے پر لٹکادیاگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دن دیہاڑے لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا۔ شواہد مٹانے کے لیے وہ جگہ بھی دھو دی گئی جہاں محترمہ شہید ہوئیں۔ امکانی گواہ بھی راتوں رات قتل ہوگئے ۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پانچ برس پی پی پی نے حکومت کی۔ بے نظیر کے قاتلوں کوپکڑنے کے بجائے زرداری صاحب نے کہا :’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔
عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کیا جانا چاہیے۔ بیانیہ کا مقابلہ زیادہ موثر اور مقبول بیانیہ سے کریں۔ جلسہ کا جواب اس سے بڑا جلسہ کرکے دیں۔ سیاسی آئیڈیاز کو پابندیاں لگا کر قید نہیں جاسکتا۔ اگرپی ڈی ایم کے پاس عوام کو دینے اور کہنے کو کچھ زیادہ بہتر ہے تو وہ گھروں سے نکلیں۔ گرم لو میں جلد کی خرابی کی پروا نہ کریں۔عوام کے پاس جائیں۔
کل تلک لوگوں کو عمران خان کے طرزحکمرانی پر بہت سارے اعتراضات تھے لیکن اب وہ بھول چکے کہ عمران خان نے کیا غلط کیا تھا۔ اب کٹہرے میں نون لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف ہے۔ اگلے عام الیکشن میں عمران خان کو اپنی کارکردگی کا حساب نہیں دینا بلکہ وزیراعظم شہباز شریف کو دینا ہے کہ آٹا، دال، چینی مہنگی کیوں ہوئی؟حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم شہبار شریف جنہوں نے پنجاب میں ایک مضبوط حکمران ہونے کا تاثر قائم کیا تھا وہ اسلام آباد آکر متحارب مفادات کے حامل گروہوں میں تن تنہا کھڑے نظر آتے ہیں۔ جیسے اپنی پارٹی اور خاندان کے لوگوں سے مسلسل ٹانگ کھینچے جانے کا خطرہ لاحق رہتاہے۔ ایک خبر کے مطابق پی پی پی کے رہنما نیئر بخاری نے وزارت داخلہ کو عمران خان کو ’’تحویل‘‘ میں لینے کا مشورہ دیا ہے۔ مخلوط حکومت کے اندر یہ کھچڑی پک رہی ہے کہ بیس مئی سے پہلے پہلے پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماؤں اور کارکنا ن کو جیلوں میں ڈال دیا جائے تاکہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ نہ کرسکیں۔سیالکوٹ میں بھی پنجا ب حکومت نے طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی جس پر اسے پورے ملک سے مذمت اور مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ حکومت کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ اسلام آباد مارچ میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ یہ پی ٹی آئی کا جمہوری حق ہے اور ہمارا آئین اس حق کی ضمانت دیتاہے۔ پی ٹی آئی کو بھی اسلام آباد مارچ کو پرامن رکھنے کی یقین دہانی کرانی چاہیے (بشکریہ روزنامہ 92) ۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں