ذرا کچھ تو سوچئے سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

سابق وزیراعظم عمران خان اگرچہ متحدہ اپوزیشن کی حکمت عملی گذشتہ سال ہی جان چکے تھے مگررواں سال فروری میں اُنہیں کامل یقین ہوگیا تھاکہ اقتدار کا سورج غروب ہونے کے نزدیک ہے۔ عمران خان نے آخری گیند تک لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے 15فروری سے اپنی توجہ حکومت بچانے پر مرکوزکردی جس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ کے اجلاس منسوخ کردئیے گئے۔۔ عمران خان اقتدار کسی صورت چھوڑنے پر تیارنہیں تھے۔ اسپیکرو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے آئین کے منافی اقدام اُٹھانے کا آخری حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا گیا مگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے فیصلے کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے ملکی تاریخ میں ایک اور شاندار نظیر قائم کردی جس کے نتیجے میں نظریہ ضرورت بھی دفن ہوگیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم کے باعث پاکستان تحریک انصاف ایوان اقتدار سے تورخصت ہوچکی مگر سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے غداری سمیت سنگین الزام تراشیوں‘ نفرت‘اداروں اور شخصیات کی بے توقیری کا خوفناک ٹرینڈ شروع ہوچکا ہے۔ اس خوفناک ٹرینڈ کی بنیاد امریکہ میں سابق پاکستانی سفیراسد مجید کے خط کو بنایا گیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے 27مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں خط کا معاملہ اُٹھاتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں پر سنگین الزامات عائد کردئیے۔ عمران خان کے ان الزامات نے معصوم ذہنوں میں نفرت کا زہر گھولنا شروع کردیا۔ عمران خان کے مطابق اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے امریکہ نے اپوزیشن جماعتوں کو ٹاسک سونپا ہے حیران کن طور پر غداری کے سنگین الزامات عائد کرنے سے قبل انکوائری تک نہ کی گئی۔ عمران خان جلسوں، سرکاری اجلاسوں اور قومی اسمبلی میں پرجوش خطابات کے ذریعے اپوزیشن کو غدار ڈیکلئیر کرنا چاہتے تھے مگر عمران خان کی یہ خواہش صرف اسی صورت ممکن ہوسکتی تھی کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بجائے بادشاہت رائج ہوتی۔ جہاں فرد واحد اپنی منشا کے مطابق انسانو ں کی زندگیوں کا فیصلہ کرتے تھے۔

قانون وانصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت قانون کے مطابق اس معاملے کی پہلے تحقیقات کرواتی۔ الزامات درست ثابت ہوتے تو پھر غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے میں کوئی قباحت نہیں تھی مگر شفاف تحقیقات چونکہ مقصود ہی نہیں تھا۔ مقصد تو صرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اپوزیشن اور اداروں کے خلاف عوام کے ذہن میں نفرت گھولنا تھی۔8اپریل کو وفاقی کابینہ نے لیٹرگیٹ کی انکوائری کیلئے کمیشن قائم کرنے کی منظوری دی مگر اگلے ہی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزراء اور اسپیکر نے غیرملکی سازش پر فتوی جاری کرنے شروع کردئیے۔
معصوم ذہنوں میں تحقیقات کے بغیر گھولا گیا زہر اثرات ظاہر کررہا ہے۔

عمران خان صاحب کے بغیرتصدیق کے الزامات اور اقتدار کی تڑپ اندرون وبیرون ملک مقیم درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔پاکستان میں سماجی شعبے میں خدمات کینیڈین یونیورسٹی میں نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مصروف فیاض باقر نے اپنے ایک خط میں وطن عزیزکو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا حل پیش کیا ہے۔جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب،میں کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی شہری ہوں اور موجودہ بحران کے دیر پا حل کی لئے انتخابی اور مالی نظام میں اصلاح کے لئے چند تجاویز آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
پاکستان کے انتخابی اور حکومتی نظام میں چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن سے عام آدمی سے بالا بالامالی وسائل مافیا کے ہاتھوں خرچ نہیں ہوں گے۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بجٹ کا 60 فیصد مقامی حکومت کے پاس جانا چاہئے۔ قومی اسمبلی کو قانون سازی کرنی چاہئے انہیں ڈیولپمنٹ فنڈ نہیں ملنے چاہئیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا انتخابی نظام ایک کاروباری نظام بن چُکا ہے۔ انتخابی مہم چلانا‘ پارٹی ٹکٹ لینا‘پارٹی قیادت کا حق حاصل کرنا سب دولت کا کھیل بن چکے ہیں۔الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ کا فیصلے کا حق کارکنوں کو ملنا چاہئے-

امریکہ میں یہ کام پارٹیوں کے اندرونی انتخابی نظام کے ذریعے ہوتا ہے۔پارلیمانی بورڈ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے جو پارٹی اپنے عہدیداروں کا انتخاب نہیں کرواتی اُسے انتخاب لینے کا قانونی حق نہیں ملنا چاہئے۔ پارٹی خاندانی کاروبار نہیں ہے پارٹی قیادت وراثت میں نہیں ملنی چاہئے۔ سرکاری ملا زمین کو سرکاری کام میں لوٹ کھسوٹ کی نشاندہی کرنے پر اپنا تحفظ حاصل کرنے کے لئے وسل بلوئر ایکٹ کے ذریعے تحفظ دیا چاہئے۔ سرکاری منصوبوں کو چلانے میں قیمتوں اور کاغذوں میں ہیر پھیر کرنا کرپشن کا بہت ذریعہ ہیں – جب تک ایماندار سرکاری ملازمین کو تحفظ نہیں ملے گا وہ لٹیروں کا ہاتھ نہیں روکیں گے- پانچویں ہمیں کاروباری شعبے میں حکومت کا عمل دخل کم سے کم کرنا چاہئے۔ سرکاری کاروباری ادارے کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں -سپیشل اکنامک زون بنا کر سرکاری مراعات پہ چلنے والے نجی کاروباری اداروں کو بھی چھٹی پہ بھیجنا چاہئے۔ ٹیکس کی شرح قومی آمدنی کے 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کی جائے۔ کشکول کو ٹیکس کے ذریعے توڑا جا سکتا ہے تقریروں کے ذریعے نہیں۔

ان سب اصلاحات کا فیصلہ نیشنل سکیورٹی کونسل اور کل جماعتی نمائندگی پر مشتمل کمیٹی میں بحث مباحثے اور اُن کی رضا مندی سے ہونا چاہیے۔
اسی طرح اسلام آباد میں مقیم ہر دل عزیز دوست اظہر بلوچ کا دل بھی انتہائی افسردہ ہے۔اپنے قلم اور زبان کے ذریعے جہاد میں ہمتن مصروف اظہر بلوچ کا کہنا ہے کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں برداشت ہم میں ختم ہوگیی ہے۔ اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں انتشار بڑھ رہا ہے۔ ہمارا فیملی سسٹم برادری سسٹم محلہ داری اسکی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی ہی رہنے دیں ایک انتہا پسند جماعت کے طور پر اسکی شناخت میں اپنا حصہ مت ڈالیں۔ تمام سیاسی جماعتیں ہماری ہیں انکی لیڈر شپ ہماری ہے۔ اس ملک کے ادارے ہمارے ہیں۔ عدلیہ اور فوج کا احترام ہم سب پر فرض ہے۔ پاکستان ہے تو یہ ہیں اور ہم ہیں۔ لوگوں میں محبت بانٹیں جو میرے اور آپکے محبوب حضوراکرم ﷺکا درس ہے۔ کم از کم آج کے دن فوج پر تنقید کرنے والوں کو ذرا یہ سوچ لینا چاہیے کہ شہید میجر لیاقت اور سپاہی عمران شہید کی فیملی اور وارثان پر آرمی پر تنقید کیوجہ سے آج اُن پر کیا گزر رہی ہوگی۔ جب ان کے اُن کے سفر آخرت کی رسومات بھی ابھی ادا نہیں ہوئی تھیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں