جواب کون دے گا؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

اگست 2019 ء میں وزیراعظم عمران خا ن نے پاکستان تحریک انصاف اور آزار ارکان پارلیمنٹ کو ملاقات کیلئے مدعو کیا۔ اس ملاقات کا مقصد حکومتی پالیسیوں‘ملکی معاشی صورتحال پر فیڈ بیک اور اپوزیشن ارکان کے خلاف جاری احتسابی مشن کو عوام میں مزید موثر انداز میں پیش کرنا تھا۔ اگست 2019ء تک ڈالر کی اونچی اُڑان کے باعث ملک میں معاشی سرگرمیاں محدود اور مہنگائی کا خوفناک سلسلہ شروع ہوچکا تھا مگر ارکان پارلیمنٹ اپنی دل کی بات وزیراعظم کے سامنے کہنے سے ہچکچا رہے تھے۔

کوئی بھی ایسی صورتحال میں وزیراعظم کی ناراضی مول لینے پر تیار نہیں تھا۔ وزیراعظم نے ایک رکن کو مخاطب کرتے ہوئے اُنکی رائے مانگی تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن نے وزیراعظم کے سامنے حکومتی پالیسوں کی تباہ کاری اور زمینی حقائق پر بلاخوف کُھل کر بات کرنا شروع کردی۔نوجوان رکن پارلیمنٹ نے وزیراعظم کومتوجہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی پالیسوں اور اُنکے خلاف شروع کی گئیں نیب تحقیقات کے باعث اُنہیں 3ہزار 200افراد کو مجبوراً فارغ کرنا پڑا ہے۔ اُنکے خاندان نے ایک پائی آج تک ملک سے باہر انوسٹ نہیں کی۔جو کچھ کمایا اسی ملک میں لگایا مگر آج کاروبار بند ہوچکا جبکہ ڈالر کی قدر بڑھنے کے باعث دیگر پاکستانیوں کی طرح انہیں بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم سمیت تمام ارکان کو چُپ لگ گئی۔ سب حیران تھے کہ ایک نوجوان رکن پارلیمنٹ نے حکومتی پالیسیوں کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے کی بجائے تابڑ توڑ حملے کرنے کی گُستاخی کیسے کردی جبکہ ملک بھر میں نیب پہلے ہی اُن کے گرد گھیرا تنگ کرچکی ہے۔نوجوان رکن پارلیمنٹ کی کوشش تھی کہ وہ وزیراعظم کو احساس دلا سکیں کہ انکی سیاسی اور احتسابی حکمت عملی کے باعث ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

وزیراعظم کے بعض مشیران ملک بھرمیں کڑے احتساب کیلئے انہیں غلط گائیڈ کررہے ہیں۔ایسی پالیسیوں کے باعث کاروباری شعبوں میں غیر یقینی کی کیفیت مسلسل بڑھ رہی ہے جس کا خمیازہ مہنگائی اور بیروزگاری کی صورت میں عوام کوبھگتنا پڑرہا ہے۔یہ حکمت عملی اپوزیشن کے غبارے میں ہوا بھردے گی جبکہ دہ دن دور نہیں جب حکومت کے اپنے ارکان مایوس ہوکر دائیں بائیں دیکھنے لگیں گے۔وزیراعظم کے حوصلہ شکن رسپانس کے باعث یہ رکن پارلیمنٹ دوبارہ کبھی وزیراعظم سے نہیں ملا۔ انہیں اندازہوگیا تھاکہ اب صرف نیب کی پیشیاں کاٹنے کے سوال ملک میں اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔نیب اور حکومتی ٹیم نے اُنکی کمپنی کے تمام منصوبوں کی فائلیں کھول دیں۔ ہسپتال‘ شاہراؤں‘موٹرویز اور میٹرو منصوبوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا۔اُنہوں نے 218پیشیاں بھگتیں مگر آج تک کچھ اُن کے خلاف نہیں نکلا۔دوسری جانب ”وزیراعظم نے چھوڑوں گا نہیں“کا ورد جاری رکھا۔ کچھ معاملات میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیب کو دستاویز بھی فراہم کی گئیں مگر نیب اور عدالتوں کی پیشوں سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ایسے میں حکومتی حکمت عملی نے اپوزیشن کو یکجا کردیا۔ اپوزیشن نے حکومتی قلعے میں موجود دڑاروں کو بھانپتے ہوئے ارکان سے رابطے شروع کردئیے۔اتحادیوں سے مثبت اشارے ملنے پر اپوزیشن نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن راؤنڈ کی ٹھان لی۔ اسی دوران 4 مارچ کو پشاورمیں خود کش حملہ ہوگیا۔ اس سانحے میں 200افراد شہید ہوگئے۔ پشاور سمیت پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔

سب کی نظریں وزیراعظم پر جمی ہوئی تھیں کہ پشاور جا کر شہدا ء کے لواحقین سے ملیں گے۔ لواحقین کو تسلی دیں گے کہ ریاست دہشتگردوں کو جلد گرفتار کرکے سزادے گی مگر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی گونج سے پریشان وزیراعظم نے پشاور کی بجائے میلسی میں جلسے سے خطاب کو ترجیح دی۔ 6 مارچ کو میلسی میں پی ٹی آئی کی ترانوں کی گونج اور اپوزیشن کو للکار نے کے بیانات نے ایسا ماحول پیدا کردیا کہ جیسے حکومت کو سانحہ پشاور کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔8مارچ کو اپوزیشن نے بالاخرتحریک عدم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروادی۔وزیراعظم اور اُنکی ٹیم کو احساس ہوچکا تھا کہ اُنکے ناراض ارکان اپوزیشن کیساتھ مل چکے ہیں لہذا ناراض ارکان پر کروڑوں روپے لینے کا الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی جبکہ منحرف ارکان حلف اُٹھا اُٹھا کر صفائیاں دیتے رہے کہ انہوں نے اپنی وفاداری کے عوض کسی سے کوئی رقم نہیں لی۔ وزیراعظم نے نئی سیاسی صف بندیاں بھانپتے ہوئے جلسوں کا سلسلہ تیز کردیاا گرچہ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخواہ میں 31مارچ کو ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کے باعث وزیراعظم اور وزراء کو جلسے کرنے سے منع کیا ہوا تھا۔ اتوار کو ملاکنڈ میں جلسہ سجایا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ضمیر کا سودا کرکے گورنمنٹ بچانی ہے تو لعنت ہے ایسی حکومت پر۔ساتھ ہی انہوں نے اپنے ایم این ایز کو پیغام دیا کہ غلطیاں ہوجاتی ہیں میں آپ کو معاف کررہا ہوں واپس آجائیں۔ یعنی آپ نے اگر کروڑوں روپے لے بھی لئے ہیں تو کوئی بات نہیں‘آپ میرا ساتھ دیں آپکے سارے گنا ہ معاف۔اُدھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کو خیبرپختونخوا میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزامات پر اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے دوسرا نوٹس جاری کردیا ہے۔

وزیراعظم کو پہلا نوٹس ڈی ایم او نے 20 مارچ کو جاری کیا تھا جب انہوں نے ضلع مالاکنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کیا تھا۔پہلے نوٹس میں ڈی ایم او نے وزیراعظم عمران خان پر زور دیا کہ وہ 22 مارچ کو ذاتی طور پر یا اپنے وکیل کے ذریعے ان کے سامنے پیش ہو کر اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں۔دوسری مرتبہ بھی پیش ہونے میں ناکامی پر یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں اور آپ کی غیر موجودگی میں متعلقہ قوانین کے تحت اپ کے کیس کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ اُدھر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی تیارہوچکا ہے۔وزیراعظم عمران خان پر تحریک عدم اعتماد کیساتھ الیکشن کمیشن کی تلوا ربھی لٹک رہی ہے۔ اگلے چندوزیراعظم عمران خان کی قسمت کا فیصلہ تو ہوجائے گا مگر سوال یہ ہے کہ اگر ساڑھے تین سالوں کے دوران 218پیشیاں بھگتنے کے بعد کرپشن کا ایک ثبوت نہ ملے‘ڈالر 182روپے تک چاپہنچے۔یوٹیلٹی سٹورز سے بھی خریدار ی عام آدمی کے بس میں نہ رہے۔کسانوں کو کھاد بلیک میں ملے اور ایک کمپنی کے3ہزار 200افراد سمیت دیگر کمپنیوں سے ہزاروں افراد کا معاشی قتل ہوجائے تو جواب کون دے گا؟

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں