او آئی سی کانفرنس میں کیا ہوگا؟ سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

بشکریہ روزنامہ 92

پاکستان کے لیے یہ اعزاز سے کم نہیں کہ اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48 واں اجلاس 22-23 مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہورہاہے۔حسن اتفاق ہے کہ 23 مارچ کویوم پاکستان کی تقریبات میں بھی وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔ اس طرح اس تقریب میں چار چاند لگ جائیں گے۔

 

چند دن قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف پندرہ مارچ کا دن منانے کا تاریخی فیصلہ کیا، جسے او آئی سی کے رکن ممالک سمیت دنیا بھر نے سراہا۔ پاکستان اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کی کوششوں کی دنیا میں تعریف ہوئی، جنہوں نے اس مسئلہ کو عالمی سطح پر بار بار اٹھایا اور بالآخر دنیا نے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد پر لبیک کہا۔ او آئی سی کے اجلاس میں اسلامو فوبیاکاموضوع مسلسل زیر بحث آتا رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو محض اپنی مذہبی شناخت کی بدولت نفرت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

 

او آئی سی کے جدہ میں قائم مرکزی سیکرٹریٹ کی اطلاع کے مطابق وزرائے خارجہ اجلاس کے ایجنڈے میں مسلم دنیا کو درپیش کئی ایک اہم مسائل شامل ہیں۔ مثلاً فلسطین اور القدس شریف کا مسئلہ اور خاص کر گزشتہ چند برسوں میں فلسطین کے تنازعہ نے جو خطرناک رخ اختیار کیا ہے، اس پر بھی گفتگو ہوگی۔

جموں و کشمیر کی صورتحال پر عمومی بحث کے علاوہ کشمیر پرقائم او آئی سی کے خصوصی کشمیر رابطہ گروپ کا بھی سائیڈ لائن پر اجلاس ہوگا۔ افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اور افغان عوام کو درپیش مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ روہنگیاکے مسلمان گزشتہ کئی برسوں سے ایک قیامت سے گزرے ہیں۔انہیں نہ صرف نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی کرنا پڑی۔او آئی سی میں روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے قائم وزارتی کمیٹی بھی اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرے گی اور آئندہ کا لائحہ عمل مشاورت سے مرتب کرے گی۔

اوآئی سی بھی دیگر عالمی تنظیموں کی طرح اپنے دائرہ کار میں مسلسل اضافہ کیے جارہی ہے۔ اس پس منظر میں اس اجلاس میں بین الاقوامی شراکت داروں،اقوام متحدہ،روسی فیڈریشن اور یورپی یونین کے ساتھ تعاون کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔سیشن کے موقع پر او آئی سی یورپ میں آباد مسلمانوں سے متعلق رابطہ گروپ کا اجلاس بھی ہوگا ۔ بین الاقوامی منظر نامے پر ابھرنے والے اہم مسائل خاص طور پرامن، انصاف اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اسلامی دنیا کے کردارکے عنوان سے ایک علمی سیشن منعقد کیا جائے گا۔چین کے وزیر خارجہ بھی اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں بطور مبصر شریک ہوں گے۔ بعدازاں وہ یوم پاکستان کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائیں گے۔

او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے انسانی حقوق مقبوضہ کشمیر میں امن و سلامتی اور انسانی حقوق کی صورتحال پراجلاس کو بریف کریں گے۔ یاد رہے کہ او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نے گزشتہ برس دسمبر میں مظفرآباد کا دورہ کیاتھا ۔ کشمیری لیڈرشپ کے ساتھ تفصیلی نشستیں بھی کیں تھیں۔چونکہ مقبوضہ کشمیر جانے کی او آئی سی کے وفد کو اجازت نہیں ملی لہٰذا انہوں نے ریموٹ مانیٹرنگ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے معلومات جمع کیں اور اب وہ او آئی سی کے اجلاس میں اپنی رپورٹ رکھیں گے۔

ماضی میں متعدد سربراہی اور وزرائے خارجہ کے اجلاسوں میں او آئی سی نے کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے لیے جاری جائز جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اور بین الاقوامی فورمز پر تنازعہ کشمیر کی حمایت کے لیے او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کی سفارش بھی کی ۔ گزشتہ برس 23 ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر منظور کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں اوآئی سی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے لیے کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کے لیے حمایت کی تھی۔ 5 اگست 2019 کے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کیا تھا۔اگرچہ کشمیر پر اوآئی سی کا خصوصی اجلاس منعقد نہیں کرایا جاسکے لیکن اس مرتبہ اس کوتاہی کا بڑی حد تک ازالہ ہوجائے گا۔

اتنی ساری تفصیلات بیان کرنے کا مقصد قارئین کو صرف یہ بارو کرانا تھا کہ اوآئی سی کا جو اجلاس اسلام آباد میں ہورہاہے ،وہ پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ایجنڈے میں متعدد ایسے موضوعات پائے جاتے ہیں جو اہل پاکستان اور عالم اسلام کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان کے دل کے قریب ہیں۔ میڈیا پر ہونے والے تبصروں میں اوآئی سی کو ایک بے مقصد فورم قراردیاجاتاہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے 1.2 بلین مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔ اس فورم نے بتدریج اپنے دائرہ کار کو وسعت دی ہے اور اب دوسری عالمی تنظیموں کے ساتھ اشترا ک بھی کررہاہے تاکہ وہ زیادہ موثر فورم کی شکل اختیار کرسکے۔

افسوس! اسلام آباد کی سیاسی فضا بہت کشیدہ ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔اپوزیشن کو خوب معلوم تھا کہ ان دنوں اوآئی سی کا اجلاس ہوناہے۔یوم پاکستان کی پریڈ اور تقریبات ہوں گی۔ حکومت نے حزب اختلاف کی لیڈرشپ سے درخواست بھی کی تھی کہ وہ اپنا احتجاج مارچ کے آخری ہفتے تک موخر کرلیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والی حکومت مخالف لیڈرشپ نے پاکستان کی جگ ہنسائی کا خوب انتظام کیا۔

اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو معاشی طور پر کمزور ہے۔ دنیا کا کاروبار اور وسائل کے لیے اس پر انحصار نہیں ۔ اس طرح کے ملک میں دنیا کے امیر اور طاقت ور ممالک کے وزرائے خارجہ کا جمع ہونا ایک غیر معمولی سفارتی کامیابی ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی ہونی چاہیے تھی۔ وزیراعظم یا صدر کی طرف سے دیئے جانے والی استقبالی تقریبات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا۔اس طرح دنیا میں اتحاد اور اتفاق کا پیغام جاتا۔اسلام آباد میں قائم اسلامی ممالک کے سفارت خانے لمحے بہ لمحے اپنی حکومتوں کو پاکستان کے بحران کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ بے یقینی کی موجودہ کیفیت میں اوآئی سی وزرائے خارجہ بھی سوچتے ہوں کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ او آئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوتو جائے گا لیکن وزیراعظم عمران خان سمیت کوئی بھی پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اس میں شرکت کرسکے گا اور نہ ہی ا سے پاکستان کے لیے مفید بنایاجاسکے گا۔ کاش! پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام حالات کی نزاکت کا کچھ خیال کرتیں اور چند دن اور انتظار کرلیتیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں