دھوبی پٹکا سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال برپا ہے۔وزیراعظم سمیت وفاقی وزراء اور پارٹی رہنما بلند وبانگ دعووں‘گالیوں اور دھمکیوں سے ایک نیا ریکارڈ بنانے میں مصروف ہیں تو اپوزیشن اقتدار کے قلعے میں دراڑ یں ڈالنے میں متحرک۔جس کسی نے بھی احتیاط کا دامن تھامنے اور لب ولہجہ درست رکھنے کا مشورہ دیا تووزیراعظم نے توپوں کا رُخ اسی کی جانب کردیا۔ اپوزیشن کو انتھک کاوشوں کے بعد بالاخر”لیول پلیئنگ فیلڈ“میسر آچکی ہے جس کے باعث شہر اقتدار 8مارچ سے سیاسی جوڑ توڑ کا گڑھ بنا ہواہے۔اپوزیشن قانونی اور آئینی طریقے سے حکومت کورخصت کرنے کیلئے جارحانہ انداز میں فیصلہ کن اننگز شروع کرچکی ہے۔

اپوزیشن کے سب سے مہلک آئینی وارکا سامنا کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی سنگین خطرات محسوس ہورہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کو کو حکومت ”بنانے اور بچانے“کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے گرد قائم حفاظتی شیلڈاچانک غائب ہوتے ہوئے کیوں محسوس ہورہی ہے؟کیا حفاظتی شیلڈ کے بغیر پاکستان تحریک انصاف تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ کے دن تک اتحادیوں کیساتھ اپنے 155ارکان کی حمایت برقرار رکھ پائے گی؟۔تحریک عدم اعتمادجمع ہونے پر وزیراعظم اور بعض وزراء نے خوشی کی شادیانے بجائے کہ وہ اسی دن کے منتظر تھے۔ دعوی کیا گیا کہ حکومت نے تو کئی اپوزیشن ارکان کی ہمدردیاں حاصل کررکھی ہیں جو کسی بھی وقت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کیلئے جان ودل سے تیار ہیں مگرجیسے ہی وزیراعظم کو اپنے ناراض اراکین کی تعداد اور ناموں سے آگاہ کیا گیا توفورا وزیر قانون‘معاون خصوصی پارلیمانی امور اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔ وزریر قانون اور معاون خصوصی پارلیمانی امور سے مشاورت کے بعد طے کیا گیاکہ پاکستان تحریک انصاف سے ممکنہ طور پر منحرف ہونیوالے ارکان قومی اسمبلی کے خلاف کاروائی کیلئے نوٹیفکیشن تیار رکھے جائیں۔ ایسے ارکان کو کسی صورت ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔سپیکر قومی اسمبلی کو بھی خصوصی ٹاسک اور گُر سمجھاد ئیے گئے۔

ناراض اراکین کو آگاہ بھی کیا گیا مگر ان اراکین نے مجال ہے کہ کسی وارننگ کی پرواہ کی ہو۔ ناراض اراکین نے گذشتہ ہفتے دھڑا دھڑ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی سے رابطے کرکے اپنی وفاداری کی ٹھوس یقین دہانی کروادی۔مطلب جو کرنا ہے کرلو۔۔۔اب واپسی نہیں ہوگی۔اُدھر وزیراعظم کو ایک تقریب کے دوران مسلم لیگ ق کا حمایت کی یقین دہانی کروانے والے وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الہی کے بزرگوں نے بھی وزیراعظم کو چارنوں شانے چت کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ایم کیو ایم کے بدلے تیور بھی سب نے دیکھ لئے ہیں۔حکومت کے پاس پارلیمنٹ کے اندر آخری ہتھیارمنحرف ارکان کو کنٹرول میں لانا ہے۔ منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کروانے سے متعلق پلڈاٹ کی وضاحت شاید وزیراعظم کو ابھی تک کسی نے فراہم نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کا پانچواں اور آخری مرحلہ ووٹنگ کا ہے۔وہ ارکان پارلیمنٹ جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر اپنی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا انہیں پارٹی سربراہ کی جانب سے منحرف قرار دیا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے اسپیکر اور چیف الیکشن کمشنر کو کیس ارسال کیا جائے گا۔ یہ کاروائی ووٹ ڈالنے کے بعدہی شروع کی جاسکے گی۔ الیکشن کمیشن کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت فیصلہ دینے کے لیے 30 دن کا وقت ہوگا۔الیکشن کمیشن جب تک کسی رکن کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کردیتا تب تک وہ رکن اسمبلی تمام مراعات حاصل کرتا رہے گا۔

اگر اس کا ووٹ پارٹی ہدایت کے برخلاف ہو اور اس وجہ سے اُسے نااہل بھی کردیا گیا ہو تب بھی اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔آرٹیکل 63اے کی تشریح کے مطابق تو ناراض ارکان حکومت کا دھڑن تختہ کر نے کے بعد ہی پارٹی سربراہ کی جانب سے ڈی سیٹ کرنے کی کاروائی کا سامنا کریں گے۔ حکومت کی رخصتی کے بعد ان ارکان کے خلاف کاروائی آخر کس کام کی ہوگی۔تحریک عدم اعتماد جمع کروانے پر خوشی اور شکرانے کا اظہار کرنے والوں کو اقتدار کی مسند کھسکتی نظر آرہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا موڈ بتارہا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون اور آئین کے مطابق سارا عمل پُرامن طریقے سے مکمل ہونا کافی مشکل ہوگا۔ لڑائی کے موڈ میں غصیلا کپتان سرپرائز دینے کیلئے تیارہے لیکن کیا یہ سرپرائز تیزی سے سرکتے اقتدار کو بچاپائے گا‘

یہ فیصلہ 28مارچ کوہوجائے گا۔کاؤنٹ ڈاؤن توپہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔اپوزیشن لیول پلئینگ فیلڈ حاصل کرنے کے بعد اتحادیوں اور ناراض حکومتی ارکان کیساتھ مل کر وزیراعظم کو دھوبی پٹکا مارچکی ہے۔ دھوبی پٹکا داؤ پہلوانوں کا خفیہ ہتھیار تصور کیا جاتا ہے۔ایمپائر مخالف فریق کو دھوبی پٹکا داؤلگنے کے بعدصرف فاتح کا ہاتھ بلند کرکے کھیل ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔دوسری جانب مرکز اور پنجاب میں بقا کی جنگ لڑتی پاکستان تحریک انصاف کیلئے آزادجموں وکشمیرحکومت بھی بھی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں اپوزیشن نہیں بلکہ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کی پارٹی پالیسی کے برخلاف حکمت عملی،اپنے حلقے کے افراد کووزراء کے حلقوں میں پٹواری‘ کلرک اور دھوبی تعینات کرکے پارٹی ارکان کو ناراضی مول لینا ہے۔ ترقیاقی کام اور پارٹی منشور کے مطابق روز گارفراہمی کے مواقعوں کی جانب عدم توجہ آزاد کشمیر میں سیاسی طوفان کا بیش خیمہ بن رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے رکن قانون ساز اسمبلی جاوید بٹ ایک تقریب کے دوران اپنے ہی وزیر اعظم پر برس پڑے۔

انہوں نے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبد القیوم نیازی کو عہدہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم ہوش کے ناخن لیں یہ حکومت ان سے نہیں چل سکتی۔ آزاد کشمیر کی حکومت چلانا آپ کے بس کی بات نہیں خدارا ہماری جان چھوڑ دیں۔جاوید بٹ نے وزیر داخلہ شیخ رشید سے اپیل کی کہ وہ ہمارے لیڈر عمران خان سے بات کریں اورخدا را ہماری جان چھڑائیں۔ ”میں وزیراعظم آزاد کشمیر کو ایک بات سمجھاتا رہا‘وہ کہتے رہے کہ بات اس طرح نہیں۔تین ماہ بعد کہتے کہ آپ کی بات سچی ہے تو میں نے کہا کہ آپ کس طرح کے وزیراعظم ہیں“۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک وفاقی وزیر کی جانب سے آزاد کشمیر میں سیاسی صورتحال اور گورننس سے متعلق رپورٹ دی جاچکی ہے۔وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کے بعد آزادکشمیر حکومت کی خبر لینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں