ایک اور کڑا متحان؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

وزیراعظم عمران خان اور اُنکی سپرٹیم کے ارکان اعلی سطحی اجلاسوں اور میڈیا بریفنگز کے دوران احتسابی مشن کے پرچارکوکبھی نہیں بھولتے۔ اگر کوئی وزیر کسی موضوع پر سنجید ہ گفتگو شروع کردے تو پہلو میں بیٹھا سُپرٹیم کا رکن لقمہ دے کر ماضی کی حکومتوں کی کرپشن داستان کو اُجاگر کرنے کی یاددہانی کروادیتا ہے۔اگرچہ بدلتی سیاسی فضا کے باعث کچھ وزراء آج کل سُپر ٹیم کی رائے سے فورااختلاف بھی کردیتے ہیں۔سُپر ٹیم کے چند ارکان کو شعلہ بیانی اور سخت الفاظ استعمال کرنے کے باعث دیگر ٹیم کے ارکان پر سبقت حاصل ہے۔

ایسے ارکان کو”ہیرا“ تصور کیاجاتاہے۔ان ہیروں کی تین سالوں کے دوران سب سے بڑی خوبصورتی یہ رہی ہے کہ اپنے فرائض سرانجام دینے کی بجائے ہرلمحہ اپوزیشن کی کرپشن کہانیاں تلاش کرکے انہیں جیل بھجوانے میں میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔کرپشن کے نام پر کئی قومی منصوبوں کے کنٹریکٹس منسوخ کئے گئے۔ تین سال گذرنے کے بعد ان منصوبوں کی لاگت میں اربوں روپے اضافہ ہوچکامگر کنٹریکٹ آج تک ایوارڈ نہیں ہوسکے۔ایسے قومی اہمیت کے منصوبے جن پر پی ٹی آئی نے آئندہ الیکشن میں بڑا کریڈٹ لینا تھا وہ منصوبے بدانتظامی کے باعث نئی داستانیں رقم کرنے کے قریب ہیں۔306کلومیٹر طویل سکھر حیدرآباد موٹروے تعمیر کا منصوبہ اس لسٹ میں سرفہرست ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے جنوری 2019ء میں سکھرحیدرآباد موٹروے تعمیر کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے چینی کمپنی پر مشتمل کنسورشیم کو یہ ٹھیکہ 175ارب روپے پر ایوارڈ کیا تھا۔ کنٹریکٹ کے مطابق سکھر حیدرآباد موٹر وے منصوبہ 2021میں مکمل ہونا تھا۔ ا س منصوبے کی تکمیل سے پشاور تا کراچی موٹروے سے مکمل طور پر منسلک ہونے تھے۔آرادم دہ سفر کیساتھ‘وقت اور وسائل کی بے پناہ بچت ہونا تھی۔ مگر بدقسمتی کیساتھ یہ قومی منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا۔ وزیر مواصلات کیساتھ وزیراعظم آفس کی ایک اہم شخصیت نے اس منصوبے میں ”ضرورت“ سے زیادہ دلچسپی لیناشروع کردی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے کاریگر افسران صورتحال کو بھانپ گئے۔2020میں موٹروے کی تعمیر کیلئے بولیاں طلب کی گئیں مگر صرف ایک بولی موصول ہونے پر بڈنگ پراسس ختم کردیا گیا۔ وقت کی اور منصوبے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ بولیاں طلب کی گئیں تو دوکمپنیوں نے بڈز جمع کروادیں۔

ٹیکنیکل بڈز اوپن ہوئیں تواین ایچ اے کے افسران کو سارا کھیل بگڑتا ہوا محسوس ہوا۔ لہذا ہر لحاظ سے کوالیفائی ٹیکنو کنسورشیم کو نااہل کردیا گیاہے جس کے باعث نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے 191ارب روپے مالیت کا 306 کلومیٹر سکھر حیدرآباد موٹروے تعمیر منصوبے ایک مرتبہ پھر تنازع کا شکار ہوگیا ہے۔ٹیکنو،سی ایم سی‘اے سی سی کے نیشنل ٹیکس نمبر کو بنیاد بنایا گیا۔تاہم ٹیکنو 1987جبکہ سی ایم سی 1925سے کاروبار کر رہی ہیں۔ اعتراض اٹھایا گیا کہ ٹیکنو،سی ایم سی،اے سی سی کے پاس سڑک کے منصوبوں کا تجربہ نہیں۔اس کے برعکس سی ایم سی پاکستان سمیت 19ملکوں میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔سی ایم سی پبلک لسٹڈ کمپنی ہے جبکہ ٹیکنو تیل اور گیس کے شعبے میں بڑا نام ہے۔ٹیکنو کی جانب سے 2002میں 480ملین ڈالر کا وائٹ آئل پائپ لائن منصوبہ مکمل کیا گیا اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور عراق میں لاکھوں ڈالرز کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

زیڈ کے بی کمپنی کی بولی تسلیم کرنے سے قومی خزانے کو 50ارب روپے سے زائد نقصان کا خدشہ ہے کیونکہ زیڈ کے بی کی جانب سے زیاد ہ سے زیادہ حکومتی سبسڈی حاصل کرنے کیلئے غیر حقیقی کم ٹریفک ظاہر کی گئی۔کراچی حیدر آباد موٹروے ایم 9سے روزانہ 59ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔کم ٹریفک کے باعث نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے شیئر میں کمی واقع ہو گی۔حقیقی ٹریفک کاؤنٹ کے ذریعے کم حکومتی سبسڈی کی ضرورت ہو گی۔۔سکھر حیدر آباد موٹر وے کو 30 ماہ کی مدت میں مکمل کیے جانے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ 306کلو میٹر طویل منصوبہ 6رویہ سڑک پر مشتمل ہو گا جس کو بلڈ اینڈ آپریٹ بنیاد پر تعمیر کیا جائے گا۔منصوبے کی رعایتی مدت25سال ہو گی۔نجی شعبے کو سرمایہ کاری پر آمدن کیلئے منصوبے کے ٹولنگ اور ذیلی حقوق دیے جائیں گے۔حکومت کی جانب سے منصوبے کی مالی عملداری کے تعاون کیلئے سرمائے کی فراہمی اور وائے ابیلٹی گیپ فنڈنگ کے ذریعے تعمیراتی مدت کے دوران43ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ٹیکنو،سی ایم سی،اے سی سی پر مشتمل مقامی اور اطالوی فرم کے کنسورشیم کو سکھر حیدر آباد موٹروے کیلئے نااہل قرار دیدیا۔ کنسورشیم کی ٹیکس حکام کے پاس رجسٹریشن،تعمیراتی شعبے کا تجربہ اورکل مالیت آر ایف پی کے مطابقت کو بنیاد بنایا گیا۔ این ایچ اے کے پاس زیڈ کے بی کی مہنگی ترین بولی تسلیم کرنے یا بولی کا عمل منسوخ کرکے دوبارہ درخواستیں طلب کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ زیڈ کے بی کمپنی کی سنگل بڈرز کی حیثیت سے مالی بولی کھلواکر کنٹریکٹ حاصل کرنے کی بھرپورتگ ودو جاری ہے۔نااہل قرار دئیے گئے ٹیکنو کنسورشیم کی نظرثانی درخواست پر 10روز گذرنے کے باوجود متعلقہ حکام نے فیصلہ جاری نہیں کیا جارہا۔این ایچ اے کی جانب سے مہنگی ترین بولی تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔اگرچہ وزرات خزانہ نے رواں مالی سال کے دوران سکھر حیدرآباد موٹروے، کراچی سرکلر ریلوے اور ایم ایل ون ریلوے منصوبے کیلئے گارنٹی فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اسد عمر کی تمام تر کوششوں کے باوجود وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف معاہدے کے باعث لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔یہ تینوں منصوبے پاکستان تحریک انصاف کیلئے سیاسی لحاظ سے انتہائی قدروقیمت کے حامل ہیں مگرکیا کریں جب قیمتی تین سال دوسرے کو کنویں میں پھینکنے پر صرف کردئیے‘اب خود اسی مقام پر آپہنچے ہیں۔ یہ تینوں منصوبے اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شروع نہ کرسکی تو اسکاسنگین خمیازہ ملک وقوم کیساتھ پی ٹی آئی کو بھی ادا کرنا پڑے گا۔
وفاقی وزیر مواصلات اور وزیراعظم آفس کا کڑا متحان شروع ہوچکاہے۔دیکھنا یہ ہوگاکہ کرپشن کے خلاف برسرپیکار حکومت منظورنظر کمپنی کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا کرکنٹریکٹ سنگل کمپنی کو ایوارڈ کرواتا ہے یا انصاف اور شفافیت کے اصولوں پر گامزن رہتے ہوئے میرٹ کاعلم بلند کیا جائے گا۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں