عوامی از خود نوٹس؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے مضبوط قلعے کے 17اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا۔ اعلیٰ کارکردگی اور عوامی تواقعات میں ناکامی سے دوچار وزراء اور حکومتی ٹیم نے اپوزیشن کے خلاف کرپشن الزامات سے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔مہنگائی‘بے روزگاری اور لاقانونیت کا سامنا کرنے والے عوام کواس مرتبہ نئے پاکستان کے نعروں سے رام نہ کیا جاسکا۔مصصم ارادہ تھا کہ گزشتہ 8برس اور بالخصوص اقتدار کے تین برس کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کھوکھلے اقدامات پر تفصیل کیساتھ لکھا جائے مگرفیس بک کے ”میموریز فیچر“ نے میرا رادہ یکسر بدل دیا۔

فیس بک میموری فیچر پر 22دسمبر 2018ء کو روزنامہ 92 نیوز میں شائع ہونیوالی میں میری ایک ایکسکلیسوسٹوری سے متعلق پوسٹ سامنے آئی۔ یہ سٹوری گیس بحران پر وزیراعظم کی قائم کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سے متعلق تھی جس میں انکشاف ہوا تھا کہ فرنس آئل‘آئل ریفائنریوں اور درآمدی گیس کی راہ ہموار کرنے والی لابیوں کی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں گیس کا بحران پیدا ہوا۔ ا س رپورٹ میں گیس بحران سے نمٹنے کیلئے 14مسائل کی نشاندہی اور حل بھی تجویز کئے گئے تھے۔ وزیراعظم نے خصوصی اجلاس بُلا کر متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی گیس بحران سے نمٹنے کیلئے پلان تیار کرنے کیساتھ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔تین سال بعد وزیراعظم عمران خان کو 21دسمبر کے دن وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وفاقی وزراء کی شکایت اور سخت تنقید کے بعد ایک مرتبہ پھر گیس بحران پر نوٹس لیتے ہوئے تین رکنی کمیٹی قائم کرنا پڑی۔سوال یہ ہے کہ آخر وزیراعظم کے نوٹس اور ہدایات کے باوجود صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بدترین کیوں ہوئی؟

تین ہفتے قبل وزیراعظم کو ایک اعلیٰ سطح اجلاس کے دوران وزیر توانائی حماد اظہر نے بتایاتھا ملکی گیس کی پیداوار میں سالانہ 9فیصد کمی ہورہی ہے۔ آئندہ چند برس کے دوران ملکی گیس کے ذخائرمکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ حماد اظہر کے اس بیان پر وزیراعظم سمیت اجلاس میں موجود وزراء پریشان ہوگئے۔ وزیراعظم نے گیس کی پیداوار میں خطرنا ک حدتک کمی کا فوری نوٹس لے لیا۔ وزیراعظم نے وزارت توانائی کو ہدایت کی گیس ذخائر میں کمی کے تناسب کادوبارہ سے جائزہ لیتے ہوئے چوری‘ملی بھگت اور تقسیم کار ی کے دوران نقصانات سے متعلق رپورٹ کابینہ کو پیش کی جائے۔ وفاقی وزیر توانائی کا دوٹوک مؤقف تھا کہ گیس ذخائر میں سالانہ 9فیصد کمی واقع ہو رہی ہے۔

مستقبل میں بڑے گیس ذخائر دریافت نہ کیے گئے تو ملک میں گیس کے ذخائر مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔جس کے باعث در آمدی گیس پر انحصار بڑ ھ جائے گا۔ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے نئے ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ روس کے تعاون سے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر کیلئے بھرپورکوشش کی جا رہی ہے۔ ٹائٹ گیس کی تلاش میں مراعات کیلئے نئی پیٹرولیم پالیسی تشکیل دی جا چکی ہے جس سے شیل گیس کی تلاش میں مدد ملے گی۔وزیراعظم پریشان تھے کہ یہ سب اقدامات تین سال گزرنے کے باوجود کیوں نہیں کئے گئے۔ حکومت کے پاس اب وقت کم ہے۔

دوہزار تیئس الیکشن کا سال ہوگا۔ حکومت نے نئی پالیسی اب تیار کرنی ہے تو اس کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں تو کئی سال لگیں گے لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کیا جائے جس سے رواں موسم سرما میں حکومت کی کچھ ساکھ بچ جائے۔ وزارت توانائی میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کردیا گیا کہ شاید عوام کو اس سے ہی کچھ تسلی ہوجائے کہ وزیراعظم اور اُنکی ٹیم ہاتھ پاؤں مار تو رہی ہے۔ اسی دوران یہ معاملہ قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے اُٹھالیا جہاں گیس کے شدید بحران پر تنقید کے دوران وزارت توانائی نے تسلیم کیا 8 ایل این جی کارگوز کی درآمد کے لیے ٹینڈرز پر ایک بھی بولی نہ لگنا‘

صنعتوں کی جانب سے فراہمی میں کمی اور قیمتوں کے تعین کے چیلنجز پر حاصل کردہ حکم امتناع گیس کی کمی کی اہم وجوہات ہیں۔حیران کن طور پر حکومت نے اکتوبر میں ایل این جی کے 8 کارگوز کے لیے ٹینڈرز طلب کیے تھے تاکہ موسم سرما کی زیادہ طلب کو پورا کیا جا سکے لیکن کوئی بولی لگانے والا نہیں آیا۔ ملک میں گیس ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ورنہ کم مدت میں پہلے سے درآمد کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔۔

سی این جی‘ سیمنٹ اور صنعتی شعبے کے کیپٹو پاور پلانٹس پر گیس کی کٹوتی لاگو کی گئی ہے اور فراہمی میں کمی اب بجلی کے شعبے کو بھی متاثر کر رہی ہے۔سب کے سامنے ایک ہی سوال تھاکہ آخر وفاقی حکومت نے گزشتہ تین برس کے دوران ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے مؤثر اقدامات کیوں نہیں کئے۔
توانائی بحران عام آدمی کا چولہا ٹھنڈا کرنے کیساتھ پوری معیشت کیلئے قاتل ثابت ہورہا ہے۔

اس بحران کی بنیادی وجہ شعبہ توانائی میں ایڈہاک ازم‘ درآمدی لابی کا اثر رسوخ اور حکومتی ٹیم کی ناتجربہ کاری ہے۔سابق وفاقی سیکرٹری پیٹرولیم ڈاکٹر ارشد نے اس شعبے کو سیدھا کرنے کیلئے دن رات ایک کئے مگر مجا ل ہے کہ وفاقی وزیرتوانائی حماد اظہر نے کبھی توجہ دی ہو۔ ریفائنری پالیسی کو ڈاکٹر ارشد نے حتمی شکل دی۔ حماد اظہر کے دستخط سے پالیسی منظوری کیلئے تین ماہ قبل کابینہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی تو حماد اظہر نے ہی اس پالیسی کی اجلاس کے دوران مخالفت کردی۔ تمام وزراء اور متعلقہ حکام ہکے بکے رہ گئے۔ اس کے بعد یہ معاملہ آج تک لٹکا ہوا ہے جس کاخمیازہ قومی خزانہ اور عوام بھگتیں گے۔

بدانتظامی کے نئے ریکارڈ نے بھی توانائی بحران کے جن بے قابوکررکھا ہے۔
موسم سرما میں گیس بحران پر تین سال قبل بھی وزیراعظم نے نوٹس لے کر انکوائری کروائی تھی مگر صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بدترین ہوچکی ہے۔دو روز قبل وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر نوٹس لے کر تین رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ طفل تسلیوں اور آنکھوں میں دھول جھونک کر حکومت چلانے کے نتائج کا ٹریلر کے پی کے میں حکمرانوں سمیت پوری قوم نے دیکھ لیا ہے۔وزیراعظم صاحب!خدارا نوٹس لینے کا سلسلہ ترک کردیجئے۔ اب عوام نے از خود نوٹس لے لیا ہے جس کا فیصلہ آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں عوام خود سنائیں گے۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں