پچھلے کچھ روز سے مسلسل ایسے فون موصول ہو رہے ہیں جیسے میں وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال کی حمایت کررہا ہوں یا میں کسی ٹاسک پر ہوں ابتداء میں اسے نظر انداز کرتا رہا تاہم اب شدت بڑھ چکی ہے اسلئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم گزشتہ دو سالوں سے روز مرہ رپورٹنگ کے حوالے سے غیر فعال ہے لیکن خبریں آج بھی ایسے ہی ملتی ہیں جیسے روزمرہ کی رپورٹنگ میں ملتی تھیں تو ان خبروں پر میرا اپنا تبصرہ یا تجزیہ کیا ہے۔
اسے میں لکھ بھی رہا ہوں اور کچھ ٹی وی چینلز پر بول بھی رہا ہوں میرے تبصرے سے کسی کا اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے تو اہل سیاسست اور صحافت سے گزارش ہے پہلے خبر اور اس پر تجزیئے تبصرے کے فرق کو ضرور جان لیں پھر مجھ پر یا میری صحافتی ساکھ پر سوال اٹھائیں اور اس سیاسی بحران پر میرا تبصرہ اور تجزیہ تبدیل نہیں ہوا مجھے اب بھی لگتا ہے کہ اس سیاسی بحران کا مقصد وزیر اعلٰی کی بگڑی ہوئی لائن اور لینتھ کو ٹھیک کرنا تھا وہ مقصد حاصل ہوچکا ہے اب میچ کے اختتام سے قبل کچھ کھلاڑی مزاحمت پر تلے ہوئے ہیں تو میچ کچھ طویل ہوگیا ہے بلوچستان کی سیاست کے ٹی ٹوئنٹی کو کس نے کیسے ٹیسٹ میچ میں تبدیل کیا اس پر پھر کسی روز لکھونگا آج اس میچ کے آخری روز کے حوالے سے لکھنا ضروری ہے۔
اس میچ کے پانچویں اور فیصلہ کن دن کا پہلا سیشن پارلیمانی قوانین کے تحت بیس اکتوبر کو شروع ہوگا اس میچ کا میدان زرغون روڈ پر گدان نما عمارت میں قائم بلوچستان صوبائی اسمبلی کا حال ہوگا جہاں عدم اعتماد کی قرار داد پارلیمانی اصولوں کے مطابق پیش ہوگی جن چودہ اراکین نے اس عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کئے ہیں ان میں سے ایک اسے اسمبلی میں پیش کریگا اور ممکنہ طور پر اسکی اہمیت اور تعریف پر بحث ہوگی آئینی ماہرین کے مطابق اس روز اجلاس ختم ہوگا اور کم از کم تین روز میں اسپیکر رائے شماری کیلئے تاریخ کا اعلان کرینگے اس روز جن چودہ اراکین نے تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل ایک سو چھتیس جسے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے قواعد انضباط کار مجریہ انیس سو چو ہتر کے قاعدہ نمبر انیس بی کے تحت جمع کی ہے۔
اس میں عدم اعتماد جمع کرنے والوں نے تینتیس ووٹ حاصل کرنے ہیں اور انکے پاس اپنے پندرہ ووٹ ہیں جبکہ انہیں امید ہے بلکہ یقین ہے کہ اپوزیشن کے چوبیس ووٹ بغیر کسی چوں چراں کے وزیر اعلٰی کے خلاف چلے جائینگے اور یوں جس نتیجے کی امید انہوں نے کھیل کے ابتدا ء میں لگائی تھی کچھ تگ و دو کے بعد وہ یہ نتیجہ حاصل کرلینگے بلوچستان اسمبلی کے نمبر گیم پر اگر نظر دوڑائیں تو بیٹنگ ٹیم مضبوط ہے پندرہ کے لگ بھگ ناراض اراکین کی ٹیم تینتیس رنز اسکور کرنے ہیں جسکے لئے انہیں مزید اٹھارہ سے بیس رنز درکار ہیں اور چوبیس رنز اپوزیشن کے ہیں وزیر اعلٰی جام کمال نے پندرہ رکنی اپوزیشن سے کم از کم سات وکٹیں حاصل کرنی ہیں اور وہ مطمئن ہیں کہ وہ کھیل کے آخری روز اس میں کامیاب ہوجائینگے۔
جبکہ جام کمال کا مخالف ناراض گروپ مطمئن ہے کہ جام کمال کے پاس کوئی اچھا پیس اٹیک نہیں ہے اسلئے ابھی تک انکی کوئی وکٹ نہیں گری بلکہ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ اپنے پاس موجود رنز میں اضافہ اسہی دوران اتنا کرینگے کہ اپوزیشن کی بھی ضرورت نہیں پڑیگی اور مائنس جام کمال کے بعد باآسانی نیا وزیر اعلٰی بھی لے آئینگے ناراض اراکین ہو یا جام کمال کیمپ دونوں طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وفاق کی حکومت انکی حمایت کررہی ہے اب پی ٹی آئی کی حمایت کس کے پاس ہے اسکا پیمانہ واضح ہے ناراض اراکین کے گروپ میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر میر نصیب اللہ مری کی موجودگی ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت انہیں ناراض گروپ میں موجود رہنے پر نہیں روکتی تو اسکا مطلب واضح ہے کہ وہ جام کمال کی حمایت میں کھل کر نہیں کھیل رہے ہیں اور یہی چیز ناراض گروپ کو درکار ہے لیکن اگر وہ میر نصیب اللہ مری کو واضح احکامات کے ساتھ روکتے ہیں تو ناراض گروپ کو ایک دھچکا لگے گا کیونکہ جس آئینی شق کے تحت یہ تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی ہے۔
اس میں تینتیس اراکین ناراض گروپ نے پورے کرنے ہیں جام کمال یا انکے کیمپ نے نہیں کرنے ہیں ناراض ارکان کا دعویٰ جام کمال کیمپ میں دراڑ ڈالنے کا ہے جبکہ جام کمال کے کیمپ کا دعویٰ ہے کہ انہیں جتنی وکٹیں حاصل کرنی ہیں یعنی کے سات کھلاڑی ناراض کیمپ سے آئوٹ کرکے واپس اپنے کیمپ میں لانے ہیں انکے لئے بائولنگ پلان تیار کرلیا گیا ہے جہاں پیس اٹیک کی زمے داری جام کمال اور انوار الحق کاکڑ کے پاس ہوگی وہیں اسپن ااٹیک کیلئے نواب زادہ طارق مگسی اور فائق جمالی کیساتھ اتحادی جماعتیں پلان کے تحت بائوکنگ کرینگی جو بھی ہو کھیل کا نتیجہ آئندہ چند روز میں ہمارے سامنے ہوگا تاہم اس عدم اعتماد کی تحریک نے بلوچستان کی سیاست میں پہلے روایت شکن کا تعارف کروادیا ہے اس سے قبل جتنے وزراء اعلٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی انہوں نے سیاسی کھیل میں اپنی قبائلی روایات یا شان و شوکت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکا سامنا کرنے کو عیب سمجھا اور استعفیٰ پر اکتفاء کیا تاہم جام کمال نے جام آف لسبیلہ ہونے کے باوجود قبائلیت اور سیاست کو الگ رکھ کر اس عدم اعتمادکی تحریک کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس سے لگتا ہے وہ سیاست اور قبائلیت کو ایک ساتھ نہیں لیکر چل رہے ہیں ر اقم کا خیال ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں قبائلیت اور زات پات کے اثر و رسوخ کو جتنا جام کمال نے چیلنج کیا ہے اسکی دھائی تو ہمیں ان بیس دنوں میں سننے کو مل چکی ہے اب اس روایت شکن کا مستقبل کیا ہوگا اور اسکے بلوچستان کی پارلیمانی سیاست پر اثرات کیا ہونگے یہ دیکھنا ہوگا تاہم بلوچستان کی پارلیمانی سیاست میں اگر شخصیات اور قبائلی شان و شوکت کا اثر و رسوخ رہے گا تو نہ پارلیمان بہتر ہوگی نہ ترقی کی سمت کا تعین ہوگا ۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں