چند دن بعد ہم 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے میں بچھڑنے والوں کی یاد منانے جارہے ہیں۔سرکاری سطح پر تقریبات برپا ہوں گی اور لوگ اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہائیں گے۔ اس دن زلزلے نے شمالی پاکستان کے کئی حصوں کو تبا کر دیاتھا ۔ خاص طور پر مظفر آباد، باغ اور بالاکوٹ میں اس قدتی آفت نے لگ بھگ 80000 لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ 40 لاکھ لوگ اجڑ گئے۔ ہنستے بستے خوبصورت شہرقبرستان کا منظر پیش کرنے لگے۔شہریوں کی ایک بڑی تعداد لاپتہ ہوئی۔ خاص طور پر چھوٹے بچے جن کا اتاپتہ آج تک نہ چل سکا ۔
زلزلے کی شام مظفر آباد کے دوستوں اور رشتہ داروں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے بہت تڑپا لیکن ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ ٹیلی فون کالینڈ لائن مواصلاتی نظام بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ آخر کار اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے مظفر آباد، باغ اور راولاکوٹ جانا پڑا۔ لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکیں تباہ ہوچکی تھیں اور زلزلے کے دوران پہاڑوں سے پتھروں کے مسلسل گرنے کی وجہ سے وہاں پہنچنے میں دو دن لگے۔
اس صورتحال کے برعکس دو سال قبل 24 ستمبر کو آزاد کشمیر کے شہر میرپور میں زلزلے کے آنے کے بعدسینکڑوں لوگ مختصر وقت میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر نمودار ہوئے اور اپنے ”محفوظ” کی اطلاع دی۔ اطمینان ہوا کہ دوست محفوظ ہیں۔ میں نے انہیں فون کرنے سے گریز کیا۔ خیال تھا کہ وہ اپنے آپ کو بچانے اور دوسروں کی مدد کرنے میں مصروف ہوں گے۔جلد ہی سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ مختلف ریلیف اور ریسکیو تنظیموں نے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر تازہ ترین معلومات شیئر کرنے اور متاثرہ لوگوں کو محفوظ زون اور ایمبولینسوں کی دستیابی کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنا شروع کردی۔ساجد دلاور خان جو کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ (KORT)، جو کہ ایک معروف فلاحی تنظیم ہے، کے منیجر ہیں نے، فوری طور پر ایک فیس بک کال سینٹر قائم کیا۔ جہاں رضاکار مدد کے لیے دستیاب تھے۔ انہیں متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ عطیہ دہندگان کی طرف سے سیکڑوں کالیں موصول ہوئیں۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پہلے 24 گھنٹوں میں رضاکاروں کی بڑی تعداد بالخصوص مقامی نو جوانوں نے KORT کی سرگرمیوں میں حصہ لیا تاکہ شہریوں کور یلیف اور پناہ فراہم کی جا سکے۔
فیس بک اور ٹویٹر میرپور کے زلزلے میں انسانی ہمدردی کے اظہار اور ریلیف کی فراہمی کے بنیادی عناصر کے طور پرابھرے۔ ایک ملین کے قریب میرپوری برطانیہ میں آباد ہیں جو اپنے خاندانوں سے محبت اور اخوت کے گہرے رشتوں میں بندھے ہیں۔وہ زلزلے کے بعد فوری طور پر درست معلومات کی دستیابی پر اصرار کررہے تھے ۔ یہ معلومات محض وہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کی خیریت کی اطلاع کے لیے نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ ان لوگوں کی مدد کے لیے بھی بے تاب تھے جو زلزلے میں بے گھر ہوچکے تھے یا جنہیں فوری امداد کی ضرورت تھی۔چنانچہ سوشل میڈیا نیٹ ورک متاثرہ خاندانوں اور بیرون پاکستان آباد شہریوں کے درمیان رابطے کا تیزرفتار اور بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوئے۔ اسی کی بدولت برطانیہ اور دنیا کے سروے ممالک سے متاثرین کے لیے خاطر خواہ مالی امداد اور ریلیف کا حصول ممکن ہوسکا۔
میرپور زلزلے کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر میرپور طاہر ممتاز نے بتایا کہ سوشل میڈیا نے متاثرہ علاقوں اور ان لوگوں کی شناخت میں بے حد مدد کی جنہیں ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق زلزلہ زدہ علاقے کے 160ہزار باشندوں میں سے تقریبا ایک لاکھ افرادموبائل فون استعمال کرنے والے تھے۔ لہٰذا مقامی حکام نے متعدد واٹس ایپ گروپس قائم کیے جہاں لوگ اور رضاکا رمدد کے لیے ویڈیو یا آڈیو پوسٹ کرتے تھے۔جو فوری طور پر انتظامیہ کی توجہ مبذول کرانے میں مدد گار ثابت ہوتی تھی۔متاثرہ کمیونٹیز کو مربوط کرنے اور باہمی رابطے کے لیے سوشل میڈیا کے علاوہ کوئی ٹول دستیاب نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ کمیونٹی کو شامل کیے بغیر قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ میرپور کے سینئر صحافی الطاف حمید راؤ نے بتایا کہ فیس بک اور ٹویٹر پر آنے والی تازہ ترین اطلاعات کی وجہ سے زلزلے سے متاثرہ افراد ا ذاتی مصائب کو بھول کرکے دوسروں کی مدد کے لیے جاری سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے کیونکہ وہ 2005 کے زلزلے کے برعکس سوشل میڈیا کی وجہ سے انہیں پل پل کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ایسے لوگوں نے متاثرین کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے اپنے دکھوں پر دوسروں کو ترجیح دی اورمصیبت زدگان کی مدد کی نئی مثالیں قائم کیں۔
سوشل میڈیا کے استعمال سے انتظامیہ بھی مسلسل عوام کوضروری معلومات فراہم کرتی رہی۔ شہریوں اور عوام کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی سوشل میڈیا اور واٹس اپ گروپس تھے۔اس طرح افواہوں اور جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی آئی۔ مقامی انتظامیہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ وہ بھی مسلسل سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کرنے اور لوگوں کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے درجنوں پیجز کو فالو کررہے تھے۔ کئی مقامات پر فوری طور پر ریلیف کی فراہمی سوشل میڈیا کی اطلاع کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکی۔چند ایک مقامات پر سوشل میڈیا کی اطلاع پر انتظامیہ نے پہنچ کر شہریوںکی جان بھی بچائی ۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ناانصافی کے خلاف فوری طور پر آواز اٹھائی اور متاثرین کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے حکام کو مجبور بھی کیا۔حقیقت یہ ہے کہ بحران اور قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین ہتھیار ہے۔سوشل میڈیا متاثرہ لوگوں کی آوازبنتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک انتہائی مفید پلیٹ فارم ہے جو کسی بھی انسانی بحران کے دوران لوگوں اور خاص طور پر متاثرہ کمیونٹیز کی غیر معمولی مد د کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ یہ کالم دراصل دوزلزلوں کا آنکھوں دیکھا احوال بیان ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں