پاکستان، چین، ایران اور روس کے برعکس بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے اور سفارتی عملے کو نکالنے کا فیصلہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان نے بھارتی قافلے کو ائر پورٹ تک محفوظ راہ داری فراہم کی۔ درحقیقت کابل پر طالبان کے قبضے نے جیو اسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل منظرناموں کی حرکیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے جس کے خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں سرگرمی کے ساتھ طالبان کے زیر انتظام افغانستان اور اس کے بعد کے نتائج سے نمٹنے کے لیے پالیسی آپشنز پر غور کر رہی ہیں۔
بھارت کے برعکس افغانستان کے پڑوسیوں سمیت تمام بڑے ممالک طالبان کے ساتھ رابطے استوار کر چکے ہیں۔ بھارت گزشتہ دو دہائیوں میں طالبان مخالف افغان حکومتوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہا اور انہیں بنیادی ڈھانچے اور سیاسی اداروں کی تعمیر کے لیے مالی مدد فراہم کرتا رہا۔ قبل ازیں بھارت نے شمالی اتحاد کی بھرپور سفارتی، سیاسی اور مالی مدد کی تھی جو طالبان مخالف جنگجوؤں کا ایک گروہ تھا۔ امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے قطر سمجھوتے کے مابعد بھارتی سفارت کاروں نے اس امن معاہدے کو پٹڑی سے اتارنے کی بھرپور کوشش کی۔
کابل میں اپنے سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انٹرا افغان مذاکرات کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ اس کے برعکس بھارت کے روایتی حریف پاکستان اور چین کے طالبان قیادت کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔ گزشتہ مہینے میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی تھی جن کا شمار طالبان تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ یہ ملاقات بیجنگ کی افغانستان میں دلچسپی اور طالبان کی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔
اکثر بھارتی مبصرین اور سیاست دان ابھی تک صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں اور یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ایک دوستانہ افغانستان اب انہیں دستیاب نہیں رہا۔ دہلی میں طالبان کے قبضے کو بھارت کے لیے بہت بڑے خسارے کا سامان تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اب افغان سرزمین پر اس کی عملی موجودگی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کابل میں اس کا بڑے پیمانے پر سیاسی اثر و رسوخ اور انٹیلی جنس سروسز کا دہائیوں پر مشتمل نیٹ ورک اور پاکستان کے اندر کام کرنے کی صلاحیت کا یک دم خاتمہ کسی سانحے سے کم نہیں۔
طالبان کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنا بھارت کے لیے ایک معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ بھارت کے بارے میں طالبان کے طویل عرصے سے پائے جانے والے خدشات اور طالبان مخالف عناصر کے ساتھ اس کی قربت ایک ایسی رکاوٹ ہے، جو مستقبل قریب میں بھارت کو افغانستان میں قابل ذکر کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ بھارت کے دو پڑوسی اور مخالفین نہ صرف موجودہ افغان حکام کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں بلکہ آنے والے دنوں میں بتدریج ان کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔
چین ہمیشہ سے افغانستان کو اپنے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ انی شیٹیو میں شامل کرنے کا خواہاں رہا ہے لیکن افغان حکومت امریکہ اور بھارتی مخالفت کی وجہ سے اس منصوبے میں شراکت دار بننے کو تیار نہ تھی۔ پاکستان افغانستان کے ذریعے ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان تک اپنی اقتصادی رسائی کو بڑھانے کے لیے مضطرب ہے۔ چین اور پاکستان پہلے ہی سی پیک کو تاجکستان سے واخان راہداری کے ذریعے مربوط کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان اور چین دونوں کے پاس ایسی ٹھوس وجوہات ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر کام کریں اور کابل حکومت پر بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کریں۔ اتفاق سے افغانستان میں نئی دہلی کے لیے واشنگٹن کی غیر مشروط حمایت اب دستیاب نہیں۔ چنانچہ دہلی کے لیے اپنا کھویا ہوا سیاسی اثر و رسوخ ازسر تو حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ بلوچستان کو ہمیشہ افغانستان سے نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے ایک منصوبہ بندی کے تحت اس صوبے میں شورش کو فکری غذا، مالی اعانت اور عسکری تربیت فراہم کی گئی۔
پاکستانی اور چینی حکام اکثر ان حملوں کو بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ کارستانی سمجھتے ہیں۔ اس لیے بھارت کو افغانستان سے باہر رکھنا چین اور پاکستان کا مشترکہ مفاد ہے۔ کابل پر قبضے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلسل بحث جا رہی ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بڑے پیمانے پر عسکریت زیادہ بڑی قوت سے ابھر سکتی ہے اور افغانستان کشمیر کے حوالے سے سرگرم مسلح تنظیموں کے لیے پناہ گاہ فراہم کرے گا۔ اس خدشے میں کم ازکم مجھے کوئی جان نظر نہیں آتی کیونکہ موجودہ طالبان قیادت زیادہ تجربہ کار ہے اور اپنے عالمی امیج کے بارے میں کافی محتاط ہے۔
کشمیری عوام اور بالخصوص نوجوان ممکنہ طور پر طالبان کی فتح سے متاثر ہو سکتے ہیں جیسا کہ 1990 کی دہائی میں افغانستان سے سوویت یونین کی روانگی نے مقامی کشمیری نوجوانوں کو ان کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی تحریک دی۔ تاہم موجودہ علاقائی صورت حال میں طالبان اور کشمیری عسکریت پسند گروپوں کے درمیان رابطہ قائم ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاوہ ازیں موجودہ کشمیری عسکریت عمومی طور پر مقامی نوعیت کی ہے اور ریاستی جبر اور سیاسی پابندیوں کی پیداوار ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے کئی شدت پسند گروہوں پر پابندی عائد کی اور ان کے سرکردہ رہنما جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستانی سول ملٹری لیڈرشپ نے بھارت کو صلاح کی پیشکش کی اور اس نے اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی بھی کی جس کا مقصد تمام حل طلب مسائل بالخصوص جموں و کشمیر کے تنازعہ کو بات چیت اور پرامن طور پر حل کرنا ہے۔ افسوس! بھارت کا جواب حوصلہ افزا نہ تھا اور اب دونوں ممالک ایک نئی کشمکش میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں