’افغان باقی کہسار باقی‘سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم بشکریہ روزنامہ 92

2007ء میں اپنے ہم نام معروف اورعظیم صحافی سہیل قلندر سے ملاقات کیلئے پشاور پہنچا۔اسلام آباد سے پشاورکے سفر کی واحد وجہ سہیل قلندر سے افغانستان و پاکستان میں طالبان کی کارروائیوں اور امریکی حملوں پر سیر حاصل گفتگو تھی۔سہیل قلندر نے تمام تر دباؤ اور خطرات کے باوجود ملاعمر سمیت افغان طالبان کیساتھ رابطہ برقرار رکھا ہوا تھا۔ سہیل قلندر نے ایک مرتبہ سنگین نتائج کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیرسینئر طالبان رہنماسے ٹیلیفونک گفتگو کرکے کتاب شائع کردی۔ اس کتاب سے اہم مضامین کو اپنے اخبارمیں ایک صفحے پرمشتمل خصوصی مضمون کے طو ر پر شائع بھی کیاتھا۔ایک دن اچانک خبر آئی مرحوم سہیل قلندر کو اغوا کرلیا گیا ہے۔سہیل قلندر کے اغوا کی ذمہ داری طالبان کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ 1995ء سے 2003ء تک ہفتہ روزہ میگزین اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی شاعری باقاعدگی سے پڑھنے کے باعث میری افغانستان سے بہت زیادہ جذباتی وابستگی قائم تھی۔ ملتان اور اسکے گردونواح سے سینکڑوں نوجوانوں کی افغان جہاد میں شرکت اور واپسی پر ہمت وشجاعت کی داستانیں وابستگی کوجلا بخشتی تھیں۔ مرحوم سہیل قلندر سے دوگھنٹوں کی ملاقات کے دوران افغان طالبان‘ پاکستانی طالبان اور امریکی کارروائیوں پر مفصل گفتگو ہوئی تھی۔سہیل قلندر سے کیا گفتگو ہوئی تھی؟یہ لکھنے سے قبل امریکی یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔نائن الیون کے بعد طاقت کے نشے میں چور امریکا افغانستان اور عراق پر چڑھ دوڑاتھا۔براؤن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20برس کے دوران امریکا کی جانب سے افغانستان کی جنگ میں 20کھرب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی گئی۔براہ راست فنڈنگ کی مد میں 800ارب ڈالر جبکہ افغان فوج کی تربیت کیلئے 83ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔امریکا کو انسانی جانوں کے ضیاع میں بھاری قیمت چکاناپڑی۔افغان جنگ کے دوران 2ہزار448امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔4ہزار کے قریب سویلین کنٹریکٹرز‘افغان فوج اور پولیس کے 66ہزار سے زائد اہلکار افغان جنگ میں جاں بحق ہوئے۔امریکا کی جانب سے طالبان کو کنٹرول کرنے کیلئے جیف بیزوس‘الون مسک‘بل گیٹس سمیت 30امیر ترین امریکیوں کی مجموعی دولت سے زائدرقم خرچ کی گئی۔افغان جنگ کیلئے امریکا کو بھاری قرض بھی لینا پڑا۔ سال2050تک افغان جنگی قرض پر سود کی لاگت 65کھرب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔امریکی قانون کے مطابق امریکی کنٹریکٹرز کی اموات اور زخمی ہونے کے حوالے سے رپورٹ کرنا ضروری ہے تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 8ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔نائن الیون کے بعد شروع کی گئی جنگوں کے نتیجے میں افغانستان‘پاکستان‘عراق‘شام‘لیبیا‘یمن‘صومالیہ اور فلپائن سے 3کروڑ70لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔امریکی حکومت کی جانب سے 85ملکوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں جس کے باعث یہ جنگ پوری دنیامیں پھیل رہی ہے۔نائن الیون کے بعد شروع کی گئی جنگیں ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں۔امریکی محکمہ دفاع دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج کرنے کا ذمہ دار ہے۔جنگیں شہری آزادی اور انسانی حقوق سلب کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔امریکی حکومت کی جانب سے عراق اورافغانستا ن میں تعمیر نو کے حوالے سے کی جانے والی فنڈنگ ان ممالک کی سکیورٹی فورسز کو اسلحہ فراہم کرنے میں استعمال ہوئی۔انسانی فلاح و بہبود‘سول سوسائٹی کی تعمیر نو کیلئے مختص رقم فراڈ‘رشوت اور کرپشن کی نظر ہو گئی۔عراق‘افغانستان‘شام اور پاکستان میں نائن الیون کے بعد شروع کی گئی جنگوں کی لاگت 64ٹریلین ڈالر ہے۔15اگست کو اقوام عالم نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جسے کوئی تصور میں لانے کو بھی تیارنہ تھا۔دنیا امریکی خفیہ ادارے کی رپور ٹ پر مطمئن تھی کہ طالبان کو کابل تک پہنچنے میں تین ما ہ درکار ہوں گے۔ افغان فورسز امریکی افواج کے جدید اسلحے اور نیٹو افواج کی ٹریننگ سے طالبان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونگے۔ افغانستان میں موجود وارلارڈز امریکا اوربھارت کی مالی سپورٹ سے طالبان کے خلاف خوفناک محاذ کھولیں گے مگر تمام انٹیلی جنس رپورٹس اور اندازے غلط ثابت ہوئے۔ 16اگست کو کابل ائیرپورٹ اور شہر کے مناظر نے دنیا کی سپر پاور کو زمین بوس کردیا۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنے مجموعے ’پیامِ مشرق‘ کو افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ خان کے نام منسوب کیا تو علامہ اقبالؒ پر بادشاہ کی خوشامد کا الزام لگا دیاگیا تھا۔ غازی امان اللہ وہ شخص تھا جس نے 1919ء میں سپرپاور برطانیہ کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے افغانستان کوبرطانیہ کا قبرستان بنا یاتھا۔ علامہ اقبالؒ نے امان اللہ خان کے ساتھی نادرشاہ کو 10ہزار روپے بطور امداد پیش کئے تھے تاہم نادر شاہ نے رقم لینے سے معذوت کرلی تھی۔ علامہ اقبالؒ نے نادرشاہ کی حریت پسندی کے باعث ایک فنڈ بھی قائم کیا تھا۔ نادرشاہ نے سازشی عناصر کے خلاف ڈٹ کر جنگ لڑی اور کچھ ہی عرصے میں کابل پرقبضہ کرلیا۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ’ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کا نام افغان قوم ہے‘۔ افغانستان میں فساد کا مطلب ایشیا میں فساد اور افغانوں کی ترقی کا مطلب ایشیا کی ترقی ہے۔ پُرامن افغانستان کے خواب کو حقیقت بنا کرہی پورے خطے کو امن وخوشحالی کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ اُمید ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے بجائے مضبوط حکومت‘انسانی اقدار کا فروغ اورفلاحی معاشی نظام کا قیام پاکستان سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی اولین ترجیح ہوگی۔اقوام عالم نے افغانستان نائن الیون کے بعد دہشت گرد قرار دئیے گئے طالبان کے حوالے کردیا ہے۔ طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی تیاری بھی کی جاچکی‘خداراب پاکستان کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کوبھی رہا کردو۔ مرحوم سہیل قلندر نے کہا تھا”سہیل بھٹی یہ بات لکھ کررکھ لوامریکی کابل تک محدو د ہیں‘ افغانستان دیگر سرپاور کی طرح امریکا کیلئے بھی قبرستان ثابت ہوگا‘ طالبان او رافغان قوم ایک مرتبہ پھر سرخروہونگے‘علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ’افغان باقی کہسار باقی‘ …… الحکم للہ‘ الملک للہ‘ یہ منظر ان شاء اللہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے“۔سہیل قلندر 2009ء میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث خالق حقیقی سے جاملے مگر آج یہ منظر دنیا بھی دیکھ رہی ہے اور مرحوم سہیل قلندر کی روح بھی۔ ’افغان باقی کہسار باقی‘۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں