سی پیک مخالف پروپیگنڈہ اور حقائق پر ایک نظر تجزیہ کار عابد خان کی خصوصی تحریر

اکثر اوقات بحث برائے بحث اور منفی سوچ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے احساس نہیں ہو پاتا کہ جو بات کی جارہی ہے وہ نہ صرف منطق کے بغیر بلکہ بلا جواز ہے اور کسی مخالف کے بنائے ہوئے پروپیگنڈہ کو فوقیت دے سکتی ہے۔ اسی تناظر میں اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو دیکھا جائے تو اس ترقیاتی منصوبہ کا کر دار پاکستان کے معاشی مستقبل کی تشکیل میں بہت اہم ہے لیکن پاکستان مخالف قوتیں ہمیشہ کی طرح سی پیک کے خلاف منفی خبر میں اور غلط اعدادو شمار عوام تک پھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تا کہ اس منصوبے کو کسی طرح سے ناکام کروایا جائے۔ جس کی ایک مثال روایتی حریف ہمسایہ ملک کا منفی پروپیگینڈہ پر مبنی پروگرام تھا جس کو بروسلز میں ایک این بی او ای لو ڈس انفولیب نے بھی بے نقاب کیا تھا۔ جب کوئی اور پروپیگنڈہ کامیاب نہ ہو اتو حالیہ دنوں میں داسو واقعہ کو لے کر سی پیک کے خلاف ایک نئی سازش کرنے کی کو شش کی گئی لیکن پاکستان اور چین کی طرف سے مشترکہ بیان کہ ہمیشہ کی طرح دونوں ملک مل کر سی پیک کو کامیاب بنائیں گئیں اور کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی سے سی پیک مخلاف ذہن رکھنے والوں کو ایک دفعہ پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کبھی ہمیشہ سی پیک کے بارے بہت واضع اور مضبوط موقف دیا کہ اس اہم منصوبے کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گیں کیونکہ سی پیک سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر اسد عمر اور چیرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کی طرف سے بھی ناصرف سی پیک کے خلاف ہونے والی سازشوں کی ہمیشہ نشاندہی کی گئی بلکہ منصوبے پر جاری کام اور مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے بھی حقائق سامنے لائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک مخصوص مہم چلانے کی کو شش کی بھی کی جارہی تھی کہ کیا پیک اس گورنمنٹ کی ترجیحات میں نہیں ہے اس لئے سست روی کا شکار ہے لیکن اب اس مہم کاوجود اس دلیل کے ساتھ ختم ہو گیا کہ بجٹ 22-2021 میں سی پیک منصوبوں کی ڈویلپمنٹ کے لیے تقریبا 87 بلین کے فنڈز مختص کئے گئے۔ کیا پیک پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اور یہ منصو به محض ایک روڈ یا سڑک تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت سارے ترقیاتی منصوبوں کا مجموعہ ہے اور اس میں شامل اہم شعبوں میں انفراسٹرکچر ، توانائی، صنعتی تعاون ، سماجی و اقتصادی ترقی، گوادر میں مختلف منصو ہے، علاقی تعاون، زراعت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور سیاحت شامل ہیں۔ اس سے خاص طور پر دونوں ملکوں کے محروم علاقوں میں لوگوں کو کاروبار اور روزگار ملے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سی پیک کی اصل روح کو سمجھا جائے اور خود کو تیار کیا جائے تا کہ اس منصوبے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکے کیونکہ یہ منصوبہ کئی چھوٹے، در میانے اور بڑے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ یہ براہ راست حکومت اور عوام سے منسلک ہے۔ اس میں عوام کے لئے ہر طرح کے مواقع موجود ہیں لیکن اگر ایک زمیندار کوئی کاروباری شخص اور نوجوان منصوبہ بندی کریں گے تب ہی وہ زراعت میں جدت سے فائدہ، کاروبار میں میچ جگہ سرمایہ کاری اور نوکری کے لئے متعلقہ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ سی پیک کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کا جائزہ لیا جائے تو سی پیک کا پہلا مرحلہ نمایاں کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا ہے، پہلے مرحلہ میں انفراسٹرکچر کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں کامیابی حاصل کی اور بہت سے منصوبے تکمیل کے کے مراحل میں ہیں جبکہ صنعتکاری اور زراعت کو جدید بنانا اور سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ دینے کے ساتھ اب دوسرا مرحلہ (2021 تا 2025) شروع ہو چکا ہے۔ چین نے پاکستان میں سی پیک کے تحت نئی سرمایہ کاری کی اور سال 2020ء میں یہ سرمایہ کاری 11 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں 3.9 بلین ڈالر کی رقم سے دو ہائیڈرو پروجیکٹس ( کوہالہ اور آزاد پین) شامل ہیں اور 7.2 بلین ڈالر کا ریلوے کی اپ گریڈیشن کا معاہدہ شامل ہے یہ 2015 کے بعد چین کی دوسری بڑی سرمایہ کاری ہے۔ انفراسٹر کچر ہمیشہ ملکی ترقی میں بہت اہم رہا ہے۔ اسی لئے انفراسٹر کچر سی پیک فریم ورک کے بنیادی ڈھانچے کا اہم حصہ ہے۔ ابھی تک انفراسٹرکچر کے جو پروجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں ان میں ملتان سکھر موٹر وے جس کی لمبائی 392 کلو میٹر ہے، دوسرا منصوبہ کے کے ان فیز ٹو ، حویلیاں – تھاکوٹ سیشن جس کی لمبائی 120 کلو میٹر ہے اور کر اس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل فیز ون بھی مکمل ہو گیا جس کے فائبر آپٹک ٹرمینلز کی لمبائی 820 کلو میٹر ہے ان منصوبوں کے علاوہ اورنج لائن میٹرو ٹرین پروجیکٹ مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ جو منصوبے تعمیراتی مراحل میں ہیں ان میں نیو گو ادر انٹر نیشنل ایئر پورٹ ، دوسرا منصوبہ ایسٹ بے ایک پر میں وے ہے جس پر 92 فیصد کام ہو چکا ہے، اس کے علاوہ منصوبوں میں جبکہ ڈی آئی خان موٹروے ہے جس کی لمبائی 297 کلو میٹر ہے، اس کا بھی 92 فیصد کام مکمل ہو گیا ہے، خضدار سے بسمہ روڈ جس کی لمبائی 110 کلومیٹر ہے، پر 60 فیصد کام ہو چکا ہے اور ژوب سے کوئٹہ روڈ جس کی لمبائی 331 کلو میٹر ہے پر کام شروع ہو گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کے نئے اور آئندہ آنے والے منصوبوں میں ریلوے کا اسٹر ٹیجک منصوبہ مین لائن ون پشاور سے کراچی بہت اہم ہے جس کی لمبائی 1872 کلو میٹر ہے ، یہ اینکر پروجیکٹ کا کام کرے گا جو پاکستان میں لاجسٹک انڈسٹری کو مزید ترقی دے گا۔ یہ منصوبہ 8.5 سال میں مکمل ہو گا، اس کے علاوہ دیگر منصوبوں میں ڈی آئی خان سے ژوب ، جس کی لمبائی 210 کلو میٹر اور 4 لائن ہائی وے ہے، خوشاب سے آوارن جس کی لمبائی 146 کلو میٹر ہے، سکھر سے حیدرآباد جس کی لمبائی 306 کلو میٹر اور کراچی سرکلر ریلوے جس کی لمبائی 43 کلو میٹر ہے شامل ہیں۔پاکستان کو طویل عرصہ تک توانائی بحران کا سامنا رہا اس لئے کی پیک کے فریم ورک میں توانائی کے منصوبے تر جی طور پر شامل کیے گئے ہیں۔ ابھی تک کسی پیک انرجی کے 17 میں سے و منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور 8 منصوبوں پر کام جاری ہے بلکہ اب مزید5 منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ اس کے علاوہ توانائی کی ضرورت پوری کرنے اور تیل اور گیس کے ترقیاتی منصوبے کے لیے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن اور آئل ریفائنری منصوبوں کی اپ گریڈیشن جیسے منصوبے شامل ہیں۔ کوہالہ اور آزاد پیٹن ہائیڈرو پاور منصوبوں کے سہ فریقی معاہدوں پر دستخط ہونے کے بعد اب توقع ہے کہ یہ منصوبے جلد شروع ہو جائیں گے۔ جب تک عوام کو براہ راست فائدہ نہ ملے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے بارے سنجیدگی نہ دکھائی جائے تب تک بڑے سے بڑا منصوبہ بھی عوام میں اپنی افادیت کھو دیتا ہے، اسی لیے سی پیک میں سماجی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختلف منصوبے رکھے گئے ہیں جن میں سے غربت کے خاتھے، صحت، تعلیم ، پیشہ ورانہ تربیت ، زراعت اور پانی کی فراہمی کے 27تر میں منصوبوں میں سے 17 فاسٹ ٹریک منصوبے سال عنقریب عمل میں آئیں گے۔ چین اور پاکستان کے مابین طے شدہ تعاون کے علاوہ مزید راہیں بھی کھولی جارہی ہیں۔ زراعت سے متعلق جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو بی) تشکیل دیا جا چکا ہے جس کی سر برای وزارت قومی فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ، پاکستان اور وزارت زراعت و دیہی امور چین کر رہی ہیں۔ ورکنگ گروپ بڑی فصلوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے ، زراعت کی پیداوار میں اضافے، کٹائی کے بعد کے ضیاع، کیڑوں اور بیماریوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اعلی معیار کے نیچ کی نشوونما اور پیداوار کے منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہو گا۔ اس کے علاوہ زراعت کو جدید بنانے کیلئے فارم مشینری کے استعمال کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے۔ سی پیک کے تحت سیاحت کو فروغ دیا سی پیک فریم ورک کے تحت تعاون کا ایک اور شعبہ ہے۔ دیکھا جائے تو ہر شعبہ زندگی کسی نہ کسی طرح سی پیک سے منسلک ہے اور یہ منصوبہ پاکستان کا مستقبل سنوارنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کورونا وائرس سے پوری دنیا بری طرح متاثر ہوئی ہے ایسے ہی کچھ اندیشے سی پیک کے بارے بھی تھے کہ شاید اس پر کام رک جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ پاکستان اور چین دونوں ہی سی پیک کے تمام منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ سی پیک ایک ترقیاتی منصوبہ ہے جو صرف چین اور پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی اس منصوبے میں شامل ہونے میں بھی لے رہے ہیں۔ لہذا محمد اری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایسے پروپگنڈہ جو خاص طور پر ایسے ترقیاتی منصور ہے جس سے ملک اور آنے والی نسلوں کا مستقبل جڑاہو کا کبھی بھی حصہ نہیں بناچاہئے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں