نون لیگ اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے الیکشن میں دھاندلی کا راگ اس قدر شد و مد سے الاپ رہی ہیں جیسے کہ دھاندلی کا سارا منصوبہ ان کی نگرانی میں مرتب ہوا ہو۔ الیکشن میں کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی ان دونوں جماعتوں نے آزاد کشمیر پر پانچ پانچ برس حکومت کی۔ گزشتہ عام الیکشن میں پی پی پی اسمبلی کی محض تین نشستیں حاصل کر سکی تھی۔ اب کی بار نون لیگ کی الیکشن میں کامیابی کے امکانات مخدوش ہوچکے ہیں۔ اس کے بڑے بڑے برج الٹنے کا خطرہ حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔
آزاد کشمیر کے لوگ زیادہ دیر تک ایک جماعت سے وابستہ نہیں رہتے۔ اکثریت ان کی تعلیم یافتہ اور عملیت پسند ہے۔ وہ آزمائے ہوں کو بار بار آزمانے کی تھیوری پر یقین نہیں رکھتے۔ عملیت پسندی کا پہلا تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر اور وفاقی حکومتوں کے مابین تعلقات ہموار ہوں۔ ترقی کے سفر میں وہ ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں۔ چنانچہ خطے کشمیر کی تعمیر و ترقی کی خاطر عوام کی ایک بہت بڑی تعداد گزشتہ چند ماہ کے دوران جوق در جوق پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنی۔
معاشرے کے فعال طبقات میں وزیراعظم عمران خان پہلے ہی بہت مقبول تھے لیکن ان کے حالیہ پے درپے دوروں نے پی ٹی آئی کو غیر معمولی پذیرائی دلائی۔ پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن مستحکم کرانے میں اوورسیز کشمیریوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ کشمیریوں کی آبادی کا بیس سے پچیس فی صد بیرون ملک خاص طور پر برطانیہ اور امریکہ میں آباد ہے۔ ان کی بھاری اکثریت موجودہ گلے سڑے نظام سے بیزار اور تحریک انصاف کی سیاسی فکر سے متاثر ہے۔
آزاد کشمیر میں وہ بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ووٹروں اور رائے عامہ کو پی ٹی آئی کے حق میں ہموار کرنے میں اور سیز کشمیریوں کا بڑا کردار ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس آزاد کشمیر کی پوری آبادی کو صحت کارڈ کے اجرا کا کا انقلابی فیصلہ کیا جس سے ہزاروں خاندانوں نے استفادہ کیا۔ صحت کارڈ نے آزاد کشمیر کے طول و عرض میں وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت اور پی ٹی آئی کی پذیرائی میں حیرت انگیز اضافہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے لیے 370 ارب روپے کا معاشی پیکیج دیا ہے۔
شہریوں کو توقع ہے کہ اسی طرح وہ آزاد کشمیر کے لیے بھی بڑے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو سیاحت سے بے حد دلچسپی ہے۔ آزاد کشمیر میں ایسے درجنوں مقامات پائے جاتے ہیں جنہیں ترقی دے کر دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ رائے عامہ کو تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں جہاں ترقی اور سیاسی استحکام کے وسیع امکانات نظر آتے ہیں وہاں انہیں یہ احساس بھی ہے کہ نون لیگ قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے سے جو بیانیہ لے کر چل رہی ہے وہ کشمیریوں کے مفاد کے برعکس ہے۔
آزاد کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں کنٹرول لائن کی دوسری جانب ایک بڑی عسکری قوت کھڑی ہے۔ جو اکثر آزاد کشمیر کے شہریوں کو اندھادھند فائرنگ کا نشانہ بناتی ہے اور انہیں نقل مکانی پر مجبور بھی کرتی ہے۔ آزاد کشمیر میں قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ مخاصمت کی کوئی روایت نہیں اور اس طرز سیاست کو پسند بھی نہیں کیا جاتا۔ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے نہ صرف من عن قبول کیا بلکہ وہ اس کے پرچارک بن گئے۔
چنانچہ خود ان کی سیاست داؤ پر لگ گئی۔ آزاد کشمیر کی آبادی میں نوجوان ساٹھ فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ نون لیگ کی حکومت نے دو ماہ قبل کابینہ کے ایک فیصلے کے ذریعے ہزاروں ایڈہاک ملازمین کو مستقل کر دیا۔ ان میں زیادہ تر حکمران جماعت کے منظور نظر تھے اور مقابلے کے امتحانات میں بھی ناکام ہوچکے تھے۔ چنانچہ آزاد کشمیر کے طول وعرض میں ایک زبردست ردعمل سامنے آیا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر نون لیگ کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اس کے برعکس تحریک انصاف نے نوجوانوں سے وعدہ کیا کہ وہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنائے گی۔ تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ پہلے حکومت میں نہیں رہی۔ اس کے برعکس نون لیگ، پی پی پی اور مسلم کانفرنس طویل عرصے تک اقتدار سے لطف اندوز ہوتی رہی ہیں۔ شہری ایک جیسے چہروں اور نعروں سے تنگ آ جاتے ہیں اور تبدیلی کے منتظر ہیں۔ فطری طور پر نئی جماعت ہونے کا پی ٹی آئی کو فائدہ مل رہا ہے۔
علاوہ ازیں کئی ایک منجھے ہوئے سیاستدان بھی تحریک انصاف کی مقبولیت اور اقتدار میں آنے کے امکانات دیکھ کر اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایسے سیاستدانوں کی ایک معقول تعداد شامل ہو چکی ہے جو اپنے اپنے علاقوں میں موثر ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر عبدالرشید ترابی نے بھی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر ایک جاندار موقف اختیار کیا۔ پانچ اگست 2019 کے بعد مسلسل کشمیر کے حوالے سے انہوں نے آواز بلند کی۔
بھارتی اقدامات کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے لے کر دنیا کے طول و عرض میں کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی۔ ان کی مخلصانہ کوششوں کو بھی کشمیر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے مختلف مقامات کے دوروں میں پرہجوم اجتماعات سے خطاب کیا۔ وزیراعظم کے دوروں نے رائے عامہ کے غالب حصہ کو متاثر کیا اور پی ٹی آئی کو حریف جماعتوں پر نمایاں برتری دلائی۔ تمام تر جائزوں اور تجزیوں کے مطالعے کے بعد یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی آسانی کے ساتھ آزاد کشمیر میں حکومت بنا لے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں