پاکستانیت اور وزیراعظم عمران خان سینئر صحافی ارشاد محمود کا کالم بشکریہ روزنامہ 92

گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے زوردیا کہ پاکستانیت پر فخر کیا جائے۔ پاکستانی زبان، کلچر اور لباس کو رواج دیا جائے۔ انگریز بننے کی کوشش میں اپنی تہذیب اور کلچر کی تذلیل نہ کی جائے۔ پاکستان میں روزاوّل سے شناخت کا مسئلہ چلا آرہاہے۔ حکمران طبقہ اینگلو انڈین یا پھر مغربی تہذیب کے زیراثر رہا۔ وہ ترقی، تہذیب ، تربیت اور رہنمائی کے لیے مغربی دنیا کے فکری ماخذوں کی طرف دیکھتاتھا۔ حکمرانوں کی گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سوائے چند ایک کے سب ہی کے سب مغربی تہذیب اور کلچر کے دلدادہ اور پروردہ تھے۔ ان کی محفلوں میں شستہ انگریزی میں راز ونیاز ہوتا۔ سرکاری تقاریب میں انگریزی بول چال کا چلن عام رہا۔ لباس کے معاملے میں بھی وہ انگریزوں سے بڑے انگریز ثابت ہوئے۔ جوتے ان کے اٹلی سے درآمدکیے جاتے اور خوشبو فرانس سے۔اردو اخبارکی کوئی ضروری خبر انہیں پڑھنا مطلوب ہوتو سرکاری کارندے اس کا انگریزی ترجمہ کرکے انہیں پیش کرتے۔اعلیٰ سرکاری نوکری بھی انہی نوجوانوں کے نام ہوتی ہیں جو مہنگے انگریزی تعلیمی اداروں یا پھر مغربی ممالک سے ڈگریاں تھامے مملکت خدادا د میں اترتے ہیں۔ تمام اہم عہدوں پر وہ قابض ہیں ۔متوسط طبقہ ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ پاتا۔عدالتوں میں بحث انگریزی میں ہوتی ہے ۔چنانچہ مدعی کے پلے کچھ نہیں پڑتا کہ جج اور وکیل کے درمیان جو تقرار جاری ہے آخر اس کا مقدمہ سے کیا تعلق ہے۔
ستر کی دہائی میں عرب تیل کی دولت سے کھیلنے لگے تو ایک طبقہ نے پاکستان کی تاریخ کو محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے شروع کرنے پر اصرار کیا۔ ماضی کی ہزاروں سالہ تاریخ کو فراموش کرنے پر وہ تلے ہوئے تھے۔ عرب کلچر ، زبان اور مذہبی رویوں کو فروغ دیاجانے لگا۔بے شمار نوجوانوں نے عرب ممالک میں تعلیم اور تربیت پائی اور اسی کلچر کو اپنایا۔ پاکستان کو عربوں کے رنگ میں وہ رنگنا چاہتے ۔ بے شمار مدارس اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے تاکہ وہ عرب ممالک کی سیاسی اور مذہبی فکر کو پاکستان پر غالب کرسکیں۔ ایرانی انقلاب نے بھی پاکستانی سماج پر گہرا اثر ڈالا۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایران کے انقلاب سے متاثر ہوا۔ یہ طبقہ امریکہ اور عرب ممالک کے خلاف فضا ہموار کرتااور پاکستانیوں کو انقلابی او رایرانی اسلامی نظریات کی طرف پکارتا۔ایرا ن اور عربوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی نے پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑے اور ہمارے سماج کو تخت وتاراج کیا۔ اکثر حکمرانوں نے اس کشمکش کا سدباب کرنے کے بجائے اس بگاڑ کو پھیلنے کی اجازت دیئے رکھی۔اب کچھ عرصے سے ہمارے ہاں ترک کلچر کے فروغ پر بڑی لے دے ہورہی ہے۔ ارطغرل غازی ڈرامہ سیریل کے اردو ترجمے نے خوب شہرت پائی اور آبادی کے ایک بڑے طبقہ کو سلطنت عثمانیہ کے جاہ وجلال سے روشناس کرایا۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ میں یہ تذبذب ابھی تک پایاجاتاہے کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات کو دیگر امور پر ترجیح دینی چاہیے یا پھر اسے مسلم امہ کے معاملات پر بھی دوٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا پابند ہے یا پھر اسے محض اپنی جغرافیائی حدود کے اندر جو کچھ ہورہاہے اس کی فکر کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے اور اس کا کوئی دوٹوک جواب نہیں۔ پاکستان کی حکومت کی پہلی ذمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ اور ان کی فلاح وبہبود ہے لیکن وہ دنیا کے بھر کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کے تنازعات سے غافل نہیں رہ سکتا۔ پاکستانی شہری مسلمانوں کے باہمی یا خارجی تنازعات سے متاثر ہوتے ہیں اور بسا اوقات وہ خودبخود ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ البتہ ان معاملات میں اعتدال کی روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے شہریوں کو ان دائروں سے نکال کر پاکستانیت پر فخر کرنے اور اسے دنیا میں متعارف کرانے پر راغب کرنے کی مسلسل اور سنجیدہ کوششیں کی ہیں ۔
یہ کافی نہیں جب تک پاکستانی ایک دوسرے کی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ نبھا کرنا نہیں سیکھ لیتے۔پاکستان کوقدرت نے بیش بہاتاریخی اور تہذیبی ورثے سے سرفراز کیا ہے۔اس کے پاس کثیر النسلی اور لسانی ورثے کا ایک خزانہ موجود ہے۔ قدیم رسم ورواج، علاقائی زبانیں، لوک گیت، آرکیالوجیکل سائیٹس جیسے کہ ٹیکسلا، موہن جو ڈرو ہڑپہ سمیت ایسے سینکڑوں تاریخی مقامات اس ملک کے طول وعرض میں پائے جاتے ہیں جن کی قدروقیمت سے ہم آشنا ہیں اور نہ ہی انہیں دنیا میں متعارف کرایاجاسکا۔ پاکستانی ڈراموں ، قوالی اور میوزک نے دنیا میں دھوم مچائی۔ ہمارے فنکاروں کو عالمی شہرت ملی لیکن ملک کے اندر انہیں وہ مقام نہ دیاجاسکا جس کے وہ مستحق ہیں۔
سیر وسیاحت کو دنیا میں زمانوں سے ایک صنعت کا درجہ حاصل ہے ۔لیکن پاکستان میں لوگ صرف روزگار کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں نہ کہ تفریح کے لیے۔ سیاحت یا تفریج کے لیے مختلف علاقوں میں جانے کا رواج اب کچھ بڑھ رہاہے ۔ ماضی میں نقل وحمل کے ذرائع نہ صرف محدود تھے بلکہ مشکل بھی تھے۔اللہ کا شکر ہے کہ ہری پور تا سکھر موٹر وے کی تکمیل سے پاکستان کے خدوخال ہی بدل چکے ہیں۔ سکھر او رحیدرآباد کے درمیان موٹر وے پر بھی کام شروع ہونے کو ہے جبکہ کراچی تا حیدرآباد موٹر وے پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح پاکستان ایک لڑی میں پرویاجاچکا ہے۔ایم ایل ون ریلوے نیٹ ورک جو کراچی سے پشاور تک پورے ملک کو تیز رفتار ٹرین سے منسلک کردے گا اور فاصلہ بھی سمیٹ دے گاـ‘ پر بھی تعمیراتی سرگرمی شروع ہونے کو ہے۔ اس طرح پاکستان کے لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ نہ صر ف کاروباری روابط استوار ہوں گے بلکہ سیاحت کے ا مکانات بھی روشن ہوجائیں گے۔ لوگ ایک دوسرے کی ثقافت اور تہذیب سے متعارف ہوں گے اور قومی یگانگت بڑھے گی۔
وزیراعظم عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سیاحت کو صنعت کے طور پر متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کی۔دوسرا انہوں نے انگریزی کلچر اور زبان کے حوالے سے پاکستانیوں میں پائے جانے والے احساس کمتری سے انہیں بڑی حد تک چھٹکارہ دلایا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی حکم دیا ہے کہ تمام سرکاری خط وکتابت اور تقاریب کو اردو زبان میں منتقل کیا جائے۔ خود وزیراعظم جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں تمام سرکاری تقاریب میں قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔شلوار قمیض اور واسکٹ زیب تن کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ تمام اداروں میں اردو کا رواج عام ہوتاجارہاہے۔امید ہے کہ یہ سلسلہ رکنے نہیں پائے گا۔
ان گزارشات کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انگریزی کو دیس نکالا سنایاجائے بلکہ اسے بطور ایک زبان کے سیکھاجانا ضروری ہے لیکن اس کی بنیاد پر آبادی کو دوحصوں میں تقسیم کردینا اور پھر ایک پورے طبقہ کو پالیسی سازی کے عمل سے محض اس وجہ سے خارج کردینا کہ وہ انگریزی زبان وبیان پر عبور نہیں رکھتے ظلم عظیم ہے جس کا کوئی اور ملک مرتکب نہیں ہوتاسوائے پاکستان کے۔شاعر اقبال عظیم ؔنے برسوں پہلے کہاتھا اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگ مرمرپہ چلو گے تو پھسل جاؤ گئے۔۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں