لگ بھگ دو برسوں کی ناکام کشمیر پالیسی کے بعد بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو ان ہی کشمیری لیڈروں کے ساتھ نشست کرنا پڑی، جنہیں ان کی حکومت نے مسترد شدہ، بدعنوان اور ملک دشمن قراردے کر طویل عرصے تک جیلوں میں بند کیے رکھا تھا۔ چرچا اگرچہ اس اعلیٰ سطحی نشست کا بہت ہوا لیکن ڈھاک کے وہ ہی تین پات کی ماند نکلا کچھ خاص نہ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے چودہ مختلف الخیال لیڈروں کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم نریند مودی نے کوئی دوٹوک بات نہ کی۔ اگرچہ محبوبہ مفتی نے ریاست جموں وکشمیر کی داخلی خودمختاری اور دفعہ 370کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا لیکن نریندر مودی نے بھارت نواز لیڈران سے صرف اتنا کہا کہ وہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کر دیں گے۔ کسی کو علم نہیں کہ ریاست کا درجہ پہلے والابحال ہوگا یا پھر کوئی ایسا میکنزم بنایاجائے گا۔ جس میں ریاست پر دہلی کا برائے راست کنٹرول پہلے سے زیادہ مضبوط ہو اور بی جے پی کے نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل ممکن ہوسکے ۔ فی الحال وزیراعظم مودی نے صرف اتنا کہاکہ وہ ریاست جموں وکشمیر جسے اب بھارت یونین ٹریٹری کے نام سے پکارتاہے، میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں میں تعاون کریں تاکہ الیکشن کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔
بھارتی حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی کیا، اسے کشمیری رائے عامہ نے مسترد کیا۔ کشمیری نام نہاد داخلی خودمختاری کے خاتمہ سے اس قدر پریشان نہیں، جس قدر انہیں یہ خوف ستارہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ان کی مسلم شناخت چھینے کے درپے ہے۔ آبادی کا تناسب بگاڑ کر مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہندو ریاست کا درجہ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ لہٰذا مزاحمت کے سوا کشمیریوں کے پاس کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔ بھارت کا خیال تھا کہ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد وہ مقبوضہ کشمیر میں نئے سیاسی گروہ کھڑے کرنے میں کامیاب ہوئے جائے گا۔اس طرح زمینی حقائق بدل جائیں گے اور آزادی پسندوں سمیت بھارت نواز لیڈرشپ قصہ پارینہ بن جائے گی۔ چنانچہ ایک کنگ پارٹی تشکیل دی گئی لیکن عوام نے اسے گھاس تک نہ ڈالی۔بھارتی حکومت کو یہ بھی یقین تھا کہ دنیا خاموشی کے ساتھ نئے حقائق تسلیم کرلے گی لیکن بھارتی اقدامات کو نہ صرف دنیا میں پذیرائی نہیں ملی بلکہ کشمیر کا مسئلہ زیادہ شدت کے ساتھ ہر عالمی فورم پر زیربحث آنے لگا۔عالمی طاقتوں کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی بھارت کو سمجھایا کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے جو خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔پاک بھارت خفیہ مذاکرات کے چند دور بھی ہوئے جو کنٹرول لائن پر جنگ بندی پر منتہج ہوئے۔
کشمیری لیڈروں کے ساتھ ہونے والی نشست سے بھارت عالمی اداروں اور مغربی ممالک کو یہ تاثر دینا کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیری لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ علاوہ ازیں کشمیریوں کو بھی تاثر دیاجارہاہے کہ جو کچھ ہوگیا ہے، اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے۔ ماضی میں جینے کے بجائے مستقبل میں جھانکیں۔ کشمیری لیڈروں سے ہونے والی نشست کا یہ ہی پس منظر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر پر کچھ پیش رفت کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ڈور کا سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ اپنی حکومت کی ناکامیوں اور غلط پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن ابھی تک اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ حکومت لچک دکھاتی ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی اور فکر ی بنیادوں پر ضرب پڑتی ہے۔ سخت گیر پالیسی برقراررکھتی ہے تو کشمیر پر داخلی اور خارجہ دباؤ اسے سانس نہیں لینے دیتا۔ چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعہ میں آنے والی شدت نے بھی بھارت کے حربی ماہرین کو مائل کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کر کے ساری توانائی چین کے خلاف استعمال کریں۔ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ بھی دنیا بھر میں چین کے خلاف جلد ازجلد سفارتی اور سیاسی کے بعد باقاعدہ فوجی محاذ تشکیل دینے کے لیے بے چین ہے۔ نیٹو کی حالیہ کانفرنس اور اس میں ہونے والی گفتگو سے بھی آشکار ہوتا ہے کہ امریکہ چین کی ترقی اور عالمی طاقت بننے کے عمل کو حقیقت بننے سے پہلے ہی کچل دینا چاہتاہے۔ اس منصوبے میں بھارت کی حیثیت ایک محور کی ہے کیونکہ وہ چین کا ہمسائیہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے ہی تنازعہ چل رہاہے اور بھارتی نژاد شہری دنیا بھر میں چین کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بھی تیز دھار آلے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
بھارت نے ابھی تک کشمیر کے ان لیڈروں کو مذاکرات کے لیے مدعو نہیں کیا جن کا تعلق آزادی یا مزاحمتی گروہوں سے ہے۔ اکثر رہنما جیلوں کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں یا پھر گھروں میں نظر بند ہیں۔حالانکہ گزشتہ تیس برسوں سے مسلسل بھارتی راج کو چیلنج کرنے والے ان مزاحمتی لیڈروں سے اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی اور من موہن سنگھ جسے وزرائے اعظم مذاکرات کے کئی دور کرچکے ہیں۔ انہیں رہاکیے بغیر اورسیاسی اور مذاکراتی عمل کا حصہ بنائے بغیر یہ بھارتی حکومت کا شروع کردہ ساراعمل ادھورا اور ایک مشق لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔
بھارتی حکومت کو مسئلہ کشمیر کو ہندوتوا کے مخصوص نظریاتی عدسے سے دیکھنے کی بجائے ایک سیاسی مسئلہ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کنٹرول لائن پر جنگ بندی ایک مثبت قدم تھا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران ایک بھی جنگی بندی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ آزادی نواز رہنماؤں کو رہا کر کے انہیں سیاسی سرگرمیاں کرنے دے اور بتدریج ان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرے۔ پاکستان بھی اس مذاکراتی عمل میں شریک ہو تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ٹکراؤ کے بجائے مفاہمت کے ساتھ اس مسئلہ کا حل تلاش کرسکیں۔بھارتی وزیرخارجہ نے گزشتہ دنوں قطر کے پے درپے دورے کیے تاکہ طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا جاسکے۔ اگر بھارت طالبان کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہوسکتا ہے تو سیّد علی گیلانی، یاسین ملک، میرواعظ، شبیر شاہ اور دیگر کشمیر ی لیڈروں کے ساتھ بیٹھنے میں کیا امر مانع ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت اورمقتدر ادارے اس خطے میں امن اورتنازعات کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر بھار ت ایک قدم بڑھاتا تو وہ دو بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان امن کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ وہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں،اسی پس منظر میں وہ کئی بار بھارت کو پیشکش کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان کے اشتراک سے اس خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے کام کرے۔ لیپاپوتی اور دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی پالیسی آج کے زمانے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ ایمانداری اور خلوص کے ساتھ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے بھارت کو پہل کرنا ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں