امیر شہر نے سچ کر دیا کہا اپنا؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے پریشان وزیراعظم عمران خان نے 4مارچ 2020کو وفاقی سیکرٹری صحت ڈاکٹر اللہ بخش کو اچانک عہدے سے ہٹادیا۔وزیراعظم آفس کورونا وائرس کی پہلی لہر سے نمٹنے کیلئے وزارت قومی صحت میں بہترین سیکرٹری تعینات کرنے کا خواہش مند تھا۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سوچ بچار اور مشاورت کے بعد ڈاکٹر سید توقیرحسین شاہ کا نام تجویزکیا۔ ڈاکٹر سید توقیر حسین شاہ کئی ماہ سے او ایس ڈی تھے۔وزیراعظم کی منظوری ملنے کے بعد بالآخرڈاکٹر سید توقیر حسین شاہ کو انچارج ایڈیشنل سیکرٹری وزارت قومی صحت تعینات کردیا گیا۔کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کے حکومت پریشان تھی کہ اس وباسے نمٹنے کیلئے وزارت قومی صحت میں بہترین ایڈمنسٹریٹر تعینات ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر سید توقیر حسین شاہ کے ٹریک ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے انہیں وزارت صحت میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا مگر ڈاکٹر سید توقیر حسین شاہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا میں طوفان بپا ہوگیا۔ ڈاکٹر سید توقیر حسین شاہ پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی انتہائی قربت حاصل ہونے سمیت کئی اعتراضات اٹھائے گئے۔اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وزیراعظم نے صرف 6روز گزرنے کے بعد 11مارچ کو ڈاکٹر سید توقیر حسین شاہ کو عہدے سے ہٹاکر ایک مرتبہ پھر اوایس ڈی بنادیا۔ وزیراعظم آفس کے ایک ذمہ دار افسر سے وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ سوشل میڈیا سیل کے ہیڈ کی جانب سے وزیراعظم کو سفارش کی گئی تھی کہ حکومت کو عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کو عہدے سے نہ ہٹایا گیاتو عوا م میں حکومتی پذیرائی بری طرح متاثر ہوگی۔ یوں سوشل میڈیا رپورٹ میرٹ پر حاوی آگئی اور ڈاکٹر توقیر شاہ گھر بھیج دئیے گئے۔وزیراعظم نے ثابت کیا کہ وہ قومی میڈیا کی بجائے اب بھی سوشل میڈیا پرعوامی جذبات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔23جنوری کو خاکسار نے92نیوز پر خبر بریک کی کہ وزارت خزانہ نے ایف نائن پارک اسلام آباد کو گروی رکھ کر 500ارب روپے تک قرض لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ضابطے کی کارروائی مکمل کی جاچکی جبکہ حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔حکومت کو بجٹ خسارے کے باعث اپنے اخراجات پورے کرنے میں مالی مشکلات کا سامنا تھا لہٰذا وزارت خزانہ نے ایسا قرض لینے کی راہ ہموار کی جس کے خرچ پر کوئی شرائط عائد نہ ہوں۔مگر یہ فیصلہ اسلام آباد کے شہری قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ایف نائن پارک کیساتھ اسلام آباد کے شہریوں کی لگن کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ خبر بریک ہوتے ہوئے ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ عوام نے حکومتی اقدام کی کھل کرمخالفت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ نے مانیٹرنگ شروع کرتے ہوئے رپورٹ تیارکی۔ یہ رپورٹ 25جنوری کو وزیراعظم کی ٹیبل پر موجود تھی۔ 26جنوری کو وفاقی کابینہ کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیراعظم نے سوشل میڈیا پر عوام کے تاثرات اور جذبات کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت خزانہ کے اقدام کی ناصرف مخالفت کی بلکہ متعلقہ حکام کی سرزنش کہ ایک عوامی پارک کو آخرگروی رکھنے کی تیاری ہی کیو ں کی گئی؟ وزیراعظم نے سوشل میڈیا رپورٹ پر ایکشن لیتے ہوئے ایف نائن پارک گروی رکھنے کی سمری مسترد کردی۔ وزیراعظم نے اس مرتبہ بھی سوشل میڈیا پر عوامی جذبات اور تاثرات کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔ 12اپریل کو حالیہ کالعدم قرارد ی گئی جماعت کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کو پنجاب پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا کیونکہ حافظ سعد رضوی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر 20اپریل کو اسلام آباد آنا چاہتے تھے۔اس اقدام کے نتیجے میں ٹی ایل پی کے کارکنوں نے ملک بھر میں مظاہرے شروع کردئیے۔پنجاب اور وفاقی حکومت کومذکورہ جماعت کے عزائم سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹس مل چکی تھیں۔ صورتحال سے نمٹنے کیلئے پنجاب اور وفاقی حکومت نے کمرکس لی۔13اپریل کو وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ وزارت داخلہ نے اچانک سمری پیش کر دی۔ وفاقی کابینہ کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ محکمہ داخلہ حکومت پنجاب نے رپورٹ دی ہے کہ مذکورہ جماعت نے پنجاب بھر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع کردیئے ہیں۔ ٹی ایل پی کے مظاہروں اور دھرنے کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لئے رینجرز کی تعیناتی ناگزیر ہوچکی ہے۔ وفاقی کابینہ نے امن اومان کے قیام کیلئے لاہور میں رینجرز کی 6 کمپنیاں‘ 2 کمپنیاں راولپنڈی‘ 3 کمپنیاں ملتان‘ 2 کمپنیاں گجرات‘ 1 کمپنی بہاولپور‘ 1 کمپنی منڈی بہاالدین‘ 1 کمپنی جہلم اور 1 کمپنی بہاولنگر میں تعینات کرنے کی منظوری دیدی۔ وفاقی وپنجاب حکومت کوادراک ہوچکا تھا کہ صورتحال کس قدر نازک ہوچکی ہے۔کالعدم ٹی ایل پی کے کارکنوں اور پولیس کے مابین چھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور پھر وہ کچھ ہو اجس کا تصور بھی محال تھا۔ سوشل میڈیا پر تما م رپورٹس جاری ہوتی رہیں۔خوفناک ٹرینڈ بنے لیکن اس مرتبہ سوشل میڈیا ٹیم کی مانیٹرنگ رپورٹ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ ہرجانب گہری تاریکی چھاچکی تھی۔ شاہراہیں بیٹل فیلڈ کا منظر پیش کررہی تھیں لیکن وزیراعظم کی سوشل میڈیا ٹیم اور مانیٹرنگ رپورٹ دونوں گم ہوچکی تھیں۔ ہر دردِد ل رکھنے والے پاکستانی نے حکومت سے اپیل کی کہ طاقت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔کنفیوژن‘منظم منصوبہ بندی کے فقدان اور قومی مشاورت نہ ہونے سے معاملات اس نہج پر پہنچے۔ بالآخر مذاکرات کے ذریعے واپسی کار استہ تو مل گیا مگر بہت تاخیر اور ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے بعد۔یہی کنفیوژن اور منصوبہ بندی کافقدان بہت سے قومی فیصلوں میں بھی حکومت کیلئے بڑی مشکلات پیدا کرنے والا ہے۔ ایک بڑی مثال کرتارپورراہداری منصوبہ ہے جس کافیز ون وزیراعظم کی ہدایت پر پیپرا رولز کے منافی 13ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا اور اب اس اقدام کی پیپرا بورڈ توثیق کرنے پر تیار نہیں۔وزیراعظم کی ہدایت پر مارچ 2019میں پیپرا بورڈ سے پیپرا کے سیکشن 21سے استثنیٰ طلب کرنے کا عمل شروع ہوا مگر بورڈ نے حکومتی ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے رولز سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی ہے۔اب وفاقی کابینہ درمیانی راستہ نکالنے کیلئے تگ ودو کررہی ہے۔ درحقیقت حکومتی ٹیم کے بیشتر ممبران میں اونرشپ کا فقدان اور قومی امور میں عدم دلچسپی کپتان کو مشکلات کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔’سجاد لاکھا‘ نے جانے کس کیفیت میں کہا تھا:
امیر شہر نے سچ کر دیا کہا اپنا
کہا تھا سانس بھی لینا محال کر دوں گا

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں