پاک سیکرٹریٹ کے اے بلاک کی نیم روشن راہ داری سے گزرتے ہوئے میں تھرڈ فلو ر پر پہنچ چکاتھا۔ ملک کے دیگر شہروں کیساتھ وفاقی دارالحکومت بھی بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی زد میں تھا۔ طے شدہ ٹائم کے مطابق میں صوفے پر براجمان تھا۔ وفاقی سیکرٹری اور دیگر افسران کیساتھ انکی مختلف امور پر مشاور ت جاری تھی۔ اچانک بجلی آئی اور کمرے میں پہلے سے آن ٹی وی پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا بیان نیوز ہیڈ لائن
کی زینت تھا۔ حسب معمول صدرمملکت آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن اور بیڈ گورننس سے متعلق انتہائی سخت بیان داغا گیا تھا۔آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی دوست اور رازدان مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین افسران کی سرزنش سے فارغ ہوئے تو توانائی کے گمبھیر مسائل پر بات کرنے سے قبل‘ میں نے سردست عمران خان کے پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے انتہائی سخت بیان پر رانکی رائے معلو م کی۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے قہقہہ لگایا اور کہا ”بھٹی تم کیوں پریشان ہو‘یار یہ اپنی پارٹی ہے‘ آصف علی زداری کی ہدایت پر ہم عمران خان کو ہر طرح کی سپورٹ فراہم کررہے ہیں‘عمران خان مستقبل میں سرپرائز دے گا‘ بیانات ویانات چلتے رہتے ہیں‘ تم دیکھتے جاؤ آگے ہوتا کیا ہے“۔ سینیٹ انتخاب سے لے کر سید یوسف رضاگیلانی کو قائد حزب اختلاف منتخب کروانے اور پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنے کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کا جملہ”اپنی پارٹی ہے“ ذہین میں گھوم رہا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ 22سال سے جاری ”اپنی پارٹی ہے“کا کھیل ملک کو ریورس گیئر لگائے ہوئے ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے اس کھیل کے باعث گورننس بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ افسر شاہی نے بھی ”اپنی پارٹی ہے“کے اصول پر الگ راہ اختیار کرلی ہے۔بے بسی کا عالم یہ ہے کہ کابینہ ارکان کے واضح اعلان کے 15روز بعد بھی حکومت پٹرول بحران میں سیکرٹری پیٹرولیم کو عہدے سے نہیں ہٹا سکی۔ ابھی پٹرول اسکینڈل کا شور تھما نہیں کہ افسر شاہی کی ”اپنی پارٹی ہے“کا ایک اور کارنامہ سامنے آگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان مہنگی توانائی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مسلسل مصروف عمل ہیں تو دوسری جانب پیٹرولیم ڈویژن کے ماتحت پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کمپنی کی جانب سے غیرملکی کمپنیوں کو پورٹ چارجز کے نام پر 7ارب روپے اضافی اداکئے جانے کا انکشاف ہواہے۔ غیرملکی کمپنیوں کو اضافی ادائیگیوں کے باعث پاکستان میں عوام کو مہنگی گیس فروخت کی گئی۔ یہ باریک واردات گزشتہ کئی
برس سے جاری تھی۔ انکوائری رپورٹ کی کاپی کے مطابق وزارت توانائی کی جانب سے12نومبر2020کو پورٹ چارجز کی مد میں ایل این جی سپلائرز کو کی جانے والی زائد ادائیگیوں کا جائزہ لینے کیلئے سینئر جوائنٹ سیکرٹری وزارت توانائی ساجد محمودقاضی کی سربراہی میں چار رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی۔انکوائری کمیٹی کی جانب سے پورٹ چارجز کی مد میں ایل این جی سپلائرز کو کی جانے والی زائد ادائیگیوں کے معاملے کی حقیقت‘واقعات کے دورانیے اورملوث افسران کے کردارکا جائزہ لینا تھا۔ایم ڈی پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ کی جانب سے 3نومبر2020کو خط کے ذریعے وزارت توانائی کو پورٹ چارجز کی مد میں ایل این جی سپلائرز کو کی جانے والی زائد ادائیگیوں کے معاملے کے بارے میں آگاہ کیا گیاجو پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ کے ایل این جی کی خریداری کے معاہدوں کی خلاف ورزی تھی۔اس وقت کی پی ایل ایل انتظامیہ کی جانب سے معاملے کے حل کیلئے کمیٹی قائم کی گئی۔کمیٹی کی جانب سے 2019میں سپاٹ سپلائرز کو زائد ادائیگی روکنے کی تجویز دی گئی۔تاہم اسی کمیٹی کی جانب سے اچھے تعلقات برقرار رکھنے کیلئے ٹرم سپلائر ای این آئی اور گنوور کو ٹرم اور سپاٹ سپلائی کے تحت زائد ادائیگیاں جاری رکھنے کی سفارش کی گئی۔معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے پی ایل ایل کی جانب سے اگست2020میں برطانوی فرم سے قانونی رائے طلب کی گئی۔اکتوبر2020میں زائد ادائیگیاں روکنے کے بعد سے پی ایل ایل کی جانب سے ایل این جی سپلائرز سے 1کروڑ76لاکھ ڈالر سے زائد وصول کیے جا چکے ہیں۔پی ایل ایل کی نئی انتظامیہ کی جانب سے معاہدے کے تحت کی جانے والی ادائیگیوں کے ذریعے اکتوبر2020سے جنوری 2021 کے کارگو ز کے ذریعے43لاکھ85ہزارڈالر سے زائد کی بچت کی گئی۔انکوائری کمیٹی نے سابق ایم ڈی پی ایل ایل عدنان گیلانی اور چیف فنانشل آفیسر ندیم نذیر پرقومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری عائد کردی ہے تاہم مالی فوائد حاصل کرنے
اور مجرمانہ ارادے کے حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی ہے۔انکوائری کمیٹی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا اس معاملے پر متعلقہ حکومتی تحقیقاتی ایجنسیاں ایکشن لے سکتی ہیں۔اس معاملے میں اگرچہ سابق ایم ڈی پی ایل ایل عدنان گیلانی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایل این جی سپلائرز کو اضافی ادائیگیوں کی نشاندہی کا کریڈت انکے سر ہے تاہم کچھ افسران انہیں انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیب نے پیٹرولیم ڈویژن سے انکوائری رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید تحقیقات شروع کردی ہیں‘ اب حتمی فیصلہ اور ریکوری نیب کورٹ ہی کرے گی۔ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے والی حکومت کا ایک اور بڑافیصلہ سامنے آیا ہے۔ کابینہ کی کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات نے وزارتوں اور ڈویژن میں ایک سال سے زائد خالی رہنے والی گریڈ 1سے16تک کی سینکڑوں آسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔وفاقی حکومت کے صحت‘تعلیم اور پولیس کے محکموں کے گریڈ 1سے گریڈ16تک کی آسامیوں کی آپریشنل نوعیت کے باعث ابھی ختم نہیں کیا جائے گا۔ کابینہ کمیٹی تمام وزارتوں اور ڈویژنز میں ایک سال سے زائد خالی رہنے والی گریڈ1سے گریڈ16کی آسامیوں کی نشاندہی کرکے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔اس فیصلے سے حکومت کی نیک نامی میں کتنا اضافہ ہوگا‘اس کیلئے ہمیں چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔ پڑوسی اور خطے کے ممالک ٹیکنالوجی کے میدان‘کورونا ویکسین کی تیاری اور ایکسپورٹس میں نئے ریکارڈ قائم کرنے میں مصروف ہیں مگر یہاں ”اپنی پارٹی ہے“ کا جاری کھیل قومی وسائل و توانائی کے ضیاع اورفروغ نفرت کا باعث بن رہا ہے۔خدارا ”اپنی پارٹی ہے“ کے کھیل کو ترک کرکے ایک قوم ایک منزل کا سفر شروع کیجئے اس سے قبل کہ پارٹی کھیل کیلئے میدان ہی نہ رہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں