بلند وبانگ دعوؤں‘جوڑ توڑ اورسٹنگ ویڈیو آپریشن کے بعد بالآخر3مارچ کو سینیٹ الیکشن منعقد ہوا۔ پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے میدان مار کر مسند اقتدار کو ہلا کررکھ دیا۔6مارچ کواعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد بظاہر بھونچال تھم چکا مگر پالیسی اور فیصلہ سازی میں بدستور لرزہ طاری ہے۔حکمران
جماعت اگرچہ افسرشاہی پہ ہے مگرروایتی نا اہلی اورسیاسی افق پر چھائی دھند نے قومی منصوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔12مارچ کا معرکہ بپا ہونا باقی ہے مگر گزشتہ ایک ماہ سے جاری سیاسی کشمکش کے باعث تعلیم سمیت قومی اہمیت کے کئی منصوبے اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ تاخیر کی نذر ہوچکا ہے۔وزیراعظم کے نوٹس در نوٹس اور ہدایات کے باوجود ان دیکھی رکاوٹیں ٹلنے کا نام نہیں لی رہیں‘ تمام تر توجہ لنگر خانے پر مرکوز جبکہ معاشی پہیہ چلانے والے منصوبے سردخانے کی نذر ہیں۔
پاکستان ریلوے کاسی پیک کے تحت6ارب80کروڑ ڈالر کا ایم ایل ون منصوبہ پاکستان کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر منصوبہ ہے۔ 5اگست2020کو ایکنک کی جانب سے اس منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔چینی حکام سے منصوبے کے قرض کی شرائط کے حوالے سے مذاکرات کیلئے وزیر اعظم کی ہدایت پر ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی صدارت میں اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم ہوئی تھی جس کے 8اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔وزارت خزانہ اور پلاننگ کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں 8اپریل2020کو چینی حکام کے ساتھ مجوزہ قرض کی شرائط کے حوالے سے دستاویزات کا تبادلہ کیا گیا تھاتاہم قرض کے حوالے سے حتمی شرائط
پاکستان اور چینی مالی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کے بعد مکمل کی جائیں گی۔پیکج ون کے تحت معاشی امور ڈویژن کے ذریعے 25نومبر2020کو چین سے ایم ایل 1منصوبے کیلئے 2ار ب 43کروڑڈالر قرض کی درخواست کی گئی۔فنانسنگ کمیٹی کے آخری اجلاس کے دوران پاکستانی حکام کی جانب سے قرض کی کرنسی‘حصہ‘ مدت اور ادائی کے حوالے سے چینی حکام کومطلع کردیا گیاتھا۔وزارت ریلوے کوا یم ایل 1منصوبے کے پیکج1کیلئے 2ار ب 43کروڑڈالر قرض کیلئے چینی حکومت کی یقین دہانی درکار ہے تاکہ پیکج1کیلئے ٹینڈرنگ کا عمل شروع کیا جا سکے۔وزارت ریلوے نے پیکج ون کا ٹینڈر دستاویزات تیار کرلی ہیں تاہم چینی حکومت کی جانب سے قرض کی کنفرمشن نہ ملنے کے باعث ٹینڈر تاخیر کی نذر ہوچکا ہے۔وزارت ریلوے نے کابینہ کمیٹی برائے سی پیک سے درخواست کی ہے کہ خداراملکی تاریخ کے اس اہم ترین منصوبے کو مزید تاخیر سے دوچار ہونے سے بچایا جائے۔ ایم ایل ون منصوبے کیلئے قرض کی شرائط طے کرنے اور چین کی جانب سے کنفرمیشن حاصل کرنے کیلئے کو ئی راستہ نکالا جائے اس سے قبل کہ دیر ہوجائے۔ایم ایل ون منصوبہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں بھی غیر یقینی سیاسی صورتحال‘جلسوں اور دھرنوں کے باعث شروع نہیں ہوسکا تھا۔ سیاسی کشیدگی نے ملک وقوم کو اس
منصوبے کے ثمرات سے سالوں محروم کردیا تھا۔2014میں اگر یہ قومی منصوبہ شروع ہوجاتاتو آج عوام کراچی سے پشاورکا سفر نئے ٹریک پردوڑتی ٹرین سے صرف 15گھنٹوں میں طے کررہے ہوتے۔آئل امپورٹ بل کی مد میں اربوں ڈالرز کی بچت ہوچکی ہوتی جبکہ سینکڑوں قیمتی جانیں ٹرین حادثوں کی نذر بھی نہ ہوئی ہوتیں۔
دوسرا معاملہ ملکی ائیرپورٹس سے متعلق ہے۔ڈیڑھ سال قبل وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے ائیرپورٹس آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا۔ قطر نے ائیرپورٹس میں سرمایہ کاری کیلئے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔کئی اجلاس منعقد ہوئے اور پھر افسر شاہی نے پرانے حربے استعمال کرنا شروع کرتے ہوئے حکمت عملی تبدیل کروادی۔وفاقی حکومت کی حکمت عملی میں تبدیلی کے باعث قطرنے پاکستان کے تین بڑے ائیرپورٹس میں شراکت داری کیلئے سرمایہ کاری کرنے سے معذوری کا اظہار کردیا۔قطر اسلام آباائیرپورٹ‘جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ اور علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر صرف کمرشل سرگرمیوں کیلئے 2017سے کوشاں تھا۔ امیر قطر نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ قطر کے موقع پاکستانی ائیرپورٹس میں سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کی جانب
سے غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے سنجیدہ کوششں نہ کرنے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے مشترتجارت رزاق داؤد کی سربراہی میں 6رکنی کمیٹی قائم کر دی تھی۔ کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود بورڈ آف انوسٹمنٹ سمیت متعلقہ حکام ائیرپورٹس پر عالمی معیار کے مطابق سروسز کی فراہمی کو یقینی بنانے اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے قطری سرمایہ کاری پاکستان لانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ وزیراعظم عمران خان کیلئے یہ نئی صورتحال حیران کن تھی کیونکہ امیر قطر نے وزیراعظم عمران خان سے پاکستانی ائیرپورٹس میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ ایک اعلیٰ سطح اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان کیلئے ایک اور پریشان کن بات یہ تھی کہ انکی ہدایت کے باوجود سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستانی ائیرپورٹس کا آپریشن اور ریگولیٹری کردار کو قانونی تقاضوں کی روشنی میں تاحال الگ نہیں کیا۔ اس اقدام کیلئے قانونی سازی بھی درکار ہے۔ ائیرپورٹس کا آپریشن اور ریگولیٹری کردار سے سول ایوی ایشن کا دائرہ کار الگ نہ ہونے تک عالمی سرمایہ کاری دلچسپی کا اظہار نہیں کریں گے۔وزیراعظم ائیرپورٹس کی کمرشل سرگرمیوں کو جلد ازجلد آؤٹ سورس کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ پاکستان آنے والے غیرملکیوں‘ سیاحوں اور پاکستانیوں کو
ائیرپورٹس پر بہترین سروسز ملنے کیساتھ ساتھ سالانہ اربوں روپے ریونیوبھی کمایا جاسکے۔ ملکی ائیرپورٹس آوٹ سورس کرنے کیلئے کاوشوں میں رکاوٹیں ختم نہیں ہوسکیں۔ تین نئے قوانین کا ڈرافٹ بھی تیار کیا گیا تاہم مخصوص لابی کی رکاوٹوں کے باعث یہ قوانین فائلوں میں دب کر رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے نوٹس لیا تو ایسی منطق پیش کی گئی جس پر مشیر اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے بھی بھرے اجلاس میں مخصوص لابی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وزیراعظم نے حتمی وارننگ دیتے ہوئے کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کو آئندہ اجلاس میں تینوں قوانین پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ دیکھتے ہیں آئندہ ہفتے کے اجلاس میں کیا گل کھلایا جاتا ہے؟
یہی نہیں وفاقی اور صوبائی سطح پرتعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدیلی کا پلان گزشتہ ایک ماہ سے منتظر ہے کہ وزیراعظم کچھ وقت عنایت کریں تو انہیں پریزنٹیشن دے کر منظوری کا عمل شروع کیا جائے مگر اتحادیوں کے ناز نخرے اُٹھانے‘ گلے شکوے دور کرنے اور اپوزیشن کو’این آر او‘نہ دینے میں مشغول وزیراعظم کے پاس ابھی وقت نہیں۔بقول قابل اجمیری:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں