میڈیا اور عوامی شعور کے باعث رفتہ رفتہ جواب دہی کا رحجان بڑھا تو عوام‘حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین تلخیاں عروج پرپہنچیں۔اختلافات نے ایسی شدت اختیا رکی کہ کئی جمہوری حکومتیں آئینی مدت پوری کئے بغیرہی رخصت کردی گئیں۔ انہی تلخ سیاسی لمحات اور کھینچاتانی کے دوران سابق وزیراعظم
چودھری شجاعت حسین نے ایک دن ’مٹی پاوکا نعرہ لگادیا جس کا مقصد سیاسی اختلافات اوررنجشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔اسی حکمت عملی کے تحت نیب کے دوغیرملکیوں کمپنیوں براڈشیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری لمیٹڈ کیساتھ معاہدے پر قومی مفاد اور وقار پر سمجھوتا کرتے ہوئے ’مٹی پاو، دی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی جرائم اور غریب عوام سے جمع کئے گئے ٹیکس پرڈاکا ڈالنے جیسے سنگین جرائم پربھی ‘‘مٹی پانا’’ جائز ہے؟
براڈشیٹ کیس سے متعلق برطانوی عدالت کے فیصلے نے ملکی وعالمی سطح پر وطن عزیز کے وقار کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ حکومت‘اپوزیشن اور نیب ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کئے ہوئے ہیں۔براڈشیٹ کیس نے حکومت وقت سمیت گزشتہ 21برس کے دوران اقتدار واپوزیشن اور قومی عہدوں پر فائز رہنے والوں کو ایک ہی قطار میں لا کھڑا کیا ہے۔ عوام پریشان ہیں کہ احتساب کے نام کیساکھلواڑ کیاگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بلاامتیاز احتساب کے سب سے بڑے داعی رہے ہیں اورانہی کے دور میں براڈشیٹ کو جس متنازع انداز میں ساڑھے 4ارب روپے کی ادائیگیاں ہوئیں ۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور اہم حکومتی شخصیات براڈشیٹ اسکینڈل میں اربوں روپے جرمانے کی ادائیگی اور عالمی سطح پر ملکی وقار
مجروح ہونے پر انتہائی برہم ہیں جس کے باعث وفاقی حکومت نے براڈشیٹ اسکینڈل سے جڑے تمام بااثر کرداروں ‘فائدہ حاصل کرنےوالے اور کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی ٹھان لی ہے۔جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے مگر اپوزیشن جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعیدکی شوکت خانم ہسپتال کیساتھ وابستگی کے باعث کڑی مخالفت کررہی ہے۔ اپوزیشن کو یہ روش ترک کرنا ہوگی۔ اس معاملے کی غیرمتنازع انکوائری بدعنوانی کی راہ میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کرسکتی ہے۔ اپوزیشن ٹھنڈے دل کیساتھ انکوائری کی ٹی اوآرز پڑھ لے اور پھر مخالفت کافیصلہ کرے۔ ٹی اوآرزکے تحت براڈ شیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری لمیٹڈ کمپنی کیساتھ 2000 میں معاہدہ کرنے والوں اور 2003میں معاہدہ منسوخ کرنےوالوں کا تعین کرکے ذمہ داری عائد کی جائے گی۔ برادشیٹ کو جرمانے کی رقم کی ادائیگی کا عمل اور لندن کی عدالتوں میں کیس لڑنے کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔کمیشن نیب کے 4سابق چیئرمینوں ‘ ریٹائرڈ وحاضر سروس افسران ©‘پراسیکوٹرز جنرلز‘وزارت قانون ‘ وزارت خارجہ ‘ وزارت خزانہ کے افسران اورحکومتی شخصیات کو طلب کرکے انکوائری کرے گا۔2000 میں نیب نے , broadsheet Trouvons LLCاور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری یونٹ لمیٹڈ کمپنی کا انتخاب اور تقررکیسے کیا۔ حکومت اور ان کمپنیوں کے مابین معاہدہ کیسے ہوا۔ براڈ شیٹ اور آئی اے آریو کمپنی کیساتھ اکتوبر 2003
میں معاہدہ ختم کرنے محرکات کیا تھے۔جنوری 2008 میں آئی اے آر اورمئی2008 میں براڈشیٹ کیساتھ سیٹل منٹ کی انکوائری کی جائے گی۔ براڈشیٹ کو جرمانے کی رقم کی ادائیگی کا عمل ‘ براڈشیٹ کیساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی وسرکاری شخصیات کے خلاف انکوائری کی جائے گی۔برطانوی عدالت کے فیصلے کے نفاذ کے دوران حکومت پاکستان کے اثاثوں کا کیسے تحفظ کیا جائے۔لندن کی عالمی ثالثی عدالت میں حکومت پاکستان نے کیس کس انداز میں لڑا۔ ثالثی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ آف جسٹس ان لندن میں اپیل پرکیس کیسے لڑا گیا۔ چار رکنی انکوائری کمیشن شفارشات مرتب کرتے وقت وزارتی کمیٹی کی جانب سے اٹھائے نکات کا جواب بھی درج کرے گا۔ انکوائری کمیشن کو کسی بھی شخص کو طلب کرنے اورکسی بھی ادارے سے ریکارڈ منگوانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ آپ یقین مانئے ان نکات پر شفاف انکوائری ان کرداروں کو بے نقاب کردے گی جو احتساب کی راہ میںآج تک اصل رکاوٹ ہیں۔اپوزیشن کو اس انکوائری کی مخالفت کرنے کے بجائے حکومت سے اس انکوائری کو جلدازجلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔اپوزیشن نظر رکھے اس مرتبہ رپور ٹ پر’مٹی پاو ‘کارروائی نہ ہو۔
وفاقی حکومت میں موجود کچھ شخصیات اہم ترین اسکینڈلز کی رپورٹ مکمل ہونے کے باوجود مٹی پاو فلسفے
پر کاربند ہیں۔ایف آئی اے انکوائری کمیشن نے 156صفحات پر مبنی رپورٹ وزیراعظم کو نومبر 2020میں پیش کی تھی۔رپورٹ پڑھ کرنئے پاکستان میں ہر پاکستانی کا سرشرم سے جھک گیاتھا۔جس وقت دنیا نے سستا تیل ذخیرہ کرکے اربوں ڈالر کافائدہ عوام کو منتقل کیااس لمحے پاکستانی عوام کے جیبوں پر 14ارب روپے کا ڈاکا ڈالا گیا اور عوام کو پٹرول کی قلت کا عذاب الگ جھیلناپڑا۔مشیران اور معاون خصوصی اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز نام اورمقام رکھتے ہیں مگر سرکاری کمپنیوں اور اداروں میں ایڈہاک ازم اور افسران کی من مانیوں کے باعث بدترین توانائی بحران نے جنم لیا۔ پٹرول بحران کی رپورٹ پہلے کمیٹی کی نذر ہوئی۔ کمیٹی نے وزیراعظم کو20دن کی تاخیر کے بعد سفارشات پیش کردی ۔ سفارشا ت پیش ہوئے 15دن گذر چکے مگر کارروائی کیلئے کوئی قلم حرکت میں آیا ہے نہ کوئی لب ہلے۔پٹرول بحران کے ذمہ داران دھڑلے سے دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ انتظامیہ ملک بھر میں دوردراز علاقوں میں تیل کی ایجنسیوں پر دھاوابول کرکاغذی کارروائی میں مشغو ل ہے۔ پٹرول بحران رپورٹ پر وزیراعظم ہاوس اور وزارت توانائی میں اپنے پیاروں کی قربانی کے خوف سے ہوکا عالم ہے۔کیا قوم یہی سمجھے اب پٹرول بحران رپورٹ پر بھی ’مٹی پا ‘دی گئی ہے؟
ملکی تاریخ میں قومی خزانے اور قومی مفاد کیساتھ کھلواڑ کی انمٹ داستانیں رقم ہیں۔ براڈشیٹ کیس دراصل
پاکستان میں کڑے احتساب کی ابتداءتھی جس کی انتہا ایک اورکرپشن اسکینڈل کی صورت میں ہوئی ہے۔اگر اس سنگین جرم کی انکوائری رپورٹ پر بھی ’مٹی پا‘ دی گئی تو سمجھ لیجئے گا شفاف احتساب کے نعرے کو ہمیشہ کیلئے منوں مٹی تلے دفن کردیا گیا ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں