کشمیر کا گوہر نایاب، اشفاق احمد ہاشمی تحریر، ڈاکٹر محمد طاہر تبسم

کشمیری اپنی منفرد سوچ، فکر اور علم و دانش کی وجہ سے ہر دور اور ہر شعبے میں ممتاز اہمیت اور حیثیت کے حامل رہے ہیں اور اپنی ذہانت و صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ علامہ اشفاق احمد ہاشمی میرے دیرینہ دوست اور ساتھی تھے ان کا تعلق ایک علمی اور مذہبی خاندان سے تھا والد محترم مولانا الطاف الرحمن ہاشمی اپنے

علاقے میں دینداری، خدمت خلق اور علم و عمل کی وجہ سے ممتاز شخصیت تھے وہ ممبر ضلع کونسل بھی رہے اور فلاح عامہ و علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے۔ اشفاق ہاشمی نے اپنی ذہانت اور کوشش مسلسل سے خود کو منوایا وہ نہ صرف حافظ قرآن بلکہ ایسے عالم دین تھے کہ جدید و قدیم علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے وہ ایک انجمن اور تحریک بن گے کہ جس کو زوال نہیں انہوں نے بڑا عرصہ لاہور میں گزارا وہاں مختلف اداروں اور اخبارات کے ساتھ وابستہ رہے جموں کشمیر محاذ آزادی کے روح رواں رہے اور عبیداللہ سندھی، مفتی محمود اور عبدالخالق انصاری کے نظریات سے متاثر تھے۔ لیکن جب کشمیر کے بطل حریت اور عظیم قومی رہنما سردار عبدالقیوم خان سے ملے تو انکے ایسے گرویدہ ہو گئے کہ پھر ساری زندگی انکے سحر کے اسیر رہے۔ سردار صاحب جب 1991 میں وزیراعظم آزادکشمیر منتخب ہوئے تو انہوں نے اشفاق ہاشمی کو اپنا پریس اینڈ پبلی کیشنز آفیسر تعینات کیا موصوف نے اس ذمہ داری کا بجا طور پر حق ادا کیا اور سردار صاحب کی بہت ساری کتب، کتابچے اور لٹریچرکو بڑی جانفشانی اور محنت سے ترتیب دے کر شائع کرایا۔ راقم سردار صاحب کا ساتھ بطور پریس سیکرٹری کام کر رہا تھا اس وجہ سے اشفاق ہاشمی سے روزمرہ رابطہ رہتا ہم فرصت کے لمحات اکثر اکٹھے گزارتے کبھی راجہ افتخار ایوب اور فدا حسین کیانی بھی شامل ہو

جاتے اور خوب بحث مباحثہ اور بعض اوقات سنجیدہ سیاسی موضوعات پر باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اشفاق ہاشمی نے کشمیر اور اہم قومی امور پر سینکڑوں کالم، مضامین اور رپورٹس بھی لکھیں جو بعد میں کتابی شکل میں “متاع قلم” کے نام سے شائع ہوئے انکی کتاب کو اہل دانش اور صاحبان علم کی طرف سے بیحد پذیرائی ملی۔ سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان اور موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے ساتھ بھی ہاشمی صاحب کے بڑے قریبی اور گہرے تعلقات رہے یہ الگ بات ہے کہ دونوں سے ان کی دوستی کا حق ادا نہ ہو سکا۔ علامہ اشفاق ہاشمی ایک گوہر نایاب انمول دانشور، صاحب طرز ادیب، خطیب انشاُ پرداز اور قلم قبیلہ کے سکہ بند سالار تھا جو محسوس کرتا بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ لکھتا، بکنے اور جھکنے کی عادت نہیں تھی ۔ اس کے مزاج میں عاجزی، درگزر اور برداشت تھا۔ اشفاق ہاشمی 61 سال کی عمر میں 10 جنوری 2015 کو ہم سب کو سوگوار چھوڑ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اسے گئے ہوئے پانچ سال بیت گے ہیں لیکن اس کی یادیں اور علم و قلم کا ورثہ زندہ ہے اور رہتی دنیا تک اس کی یادیں باقی رہیں گی۔ انکے ایک بھائی ارشاد احمد ہاشمی بھی ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ ہاشمی صاحب کی تین بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں دو بیٹے سول انجیر ہیں اور بیٹی فاطمہ اشفاق ہاشمی ساہیکالوجسٹ ہےاور اپنے والد کی طرح زرخیز ذہن اور متحرک ہیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں