مالی مشکلات اور حاتم طائی کی قبر پہ لات، نائیلہ الطاف کیانی کا کالم

حکومت آزادکشمیر نے گزشتہ بجٹ میں چھوٹے گریڈ کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ فنڈز کی کمی ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں میں وزیراعظم جناب فاروق حیدر صاحب نے ٹویٹ کے ذریعے عوام کو خبر دی تھی کہ نامساعد حالات اور فنڈز کی کمی کے باعث تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی

مشکل ہو رہی ہے اس لئے آٹے کی فی من قیمت میں 300 روپے کا اضافہ ناگزیر ہے۔ گو کہ یہ اضافہ بعد ازاں 500 روپے پر منتنج ہوا۔ وسائل کی کمی کے اس مسلسل واویلے کے درمیان اچانک ایک نوٹیفکیشن سامنے آیا جس نے سول سوسائٹی میں بے چینی کی لہر دوڑ دی۔ یہ نوٹیفیکیشن لینٹ افسران میں سے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے الاوئنسز میں بلترتیب 4 لاکھ روپے اور تین لاکھ پچھتر ہزار روپے کے اضافے کا مثردہ لے کر آیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ رقم مذکورہ بالا افسران کویکم دسمبر 2020 سے ماہانہ بنیادوں پر تنخواہ کے علاوہ ادا کی جائے گی۔ ان افسران کے الاوئنسز میں کئے گئے ہوشربا اضافے سے اس مالی سال میں حکومت کو 44۔5 ملین روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری ان 5 افسران میں شامل ہوتے ہیں جنہیں وفاق کی جانب سے آزادکشمیر میں تعینات کیا جاتا ہے اور عرف عام میں انہیں لینٹ افسران کہا جاتا ہے۔ باقی تین افسران میں سیکرٹری فنانس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ڈیویلپمنٹ اور اکاونٹنٹ جنرل شامل ہیں۔  تفصیلات کے مطابق یہ نوٹیفکیشن گزشتہ مہینے کے اختتام پر جاری کیا گیا تھا مگر ممکنہ ردعمل کے ڈر سے اسے چھپایا گیا۔ اس کے منظر عام پر آتے ہی سول سوسائٹی میں بیچینی کا اظہار کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر حکومتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی ذرائع مختلف فورموں پر

فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق باقی صوبوں اور خاص طور پر پنجاب کے برابر مراعات لانے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادکشمیرکے محکمہ مال جواس معاملے میں حکومت کا معاون دکھائی دیتا ہے اور ان افسران کو دیگر صوبوں کے برابر تنخواہیں دینے پر مصر ہے عموما دیگر ملازمین کو بارہا دیگر صوبوں سے برابری نہ کرنے کی صلاح دیتا رہتا ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لینٹ افسران پر یہ خصوصی عنائیت اپنی نوعیت کی واحد عنائیت نہیں ہے۔ اس سے قبل جون 2005 میں سردار سکندر حیات صاحب جب مسلم کانفرنس کی طرف سے وزیراعظم تھے تو انہوں نے چیف سیکرٹریز کو بعد از ریٹائرمنٹ مراعات دینے کا آغاز کیا تھا۔ جون 2011 میں سردار عتیق احمد خان صاحب کے دور حکومت میں اس نوٹیفکیشن کی توثیق کی گئی۔ پی پی پی کی حکومت نے بھی ان مراعات کو جاری رکھا۔ تاہم مارچ 2017 میں فاروق حیدر صاحب کے دوسرے دور حکومت میں نہ صرف پچھلی مراعات جاری رکھی گئیں بلکہ نوازشات کی مزید بارش بھی کی گئی بلکہ سابق نسپکٹر جنرلز کو بھی ان لوگوں میں شامل کر لیا جنہیں آزاد حکومت، پاکستان میں اپنے عہدوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات دیتی رہے گی۔ اس موقع پر یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ آئی جی پی بشیر میمن صاحب نے علی الاعلان ان مراعات کو وصول کرنے

سے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ ان کا ضمیر ایک غریب ریاست کے وسائل پر بوجھ بننا گوارا نہیں کرتا۔ تاہم یہ سلسلہ اکتوبر 2020 تک جاری رہا۔ اکتوبر میں عدالت عالیہ آزادکشمیر نے اپنے تاریخی فیصلے میں عنائیات کا یہ سلسلہ منقطع کرنے کا حکم جاری کیا اور تمام تین نوٹیفکیشن عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے دئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے مالی مشکلات کے باوجود دباؤ کے حالات میں یہ ناپسندیدہ قدم اٹھایا ہے۔ تاہم اس قسم کے غیر مقبول فیصلے عوام میں بے چینی پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور عوام محسوس کرتے ہیں کہ لینٹ افسران کو وائسرائے کی صورت آزادکشمیر پر مسلط کیا جا رہا ہے۔  حکومت کو کسی دباؤ میں آئے بغیر عوامی مفاد اور اپنے حالات کے مطابق فیصلے کرنے چاہیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں