اسٹرٹیجک سے معاشی بیانیے تک سفر، سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

خاموشی سے لیکن کامیابی سے پاکستان کا عمومی بیانیہ بدل رہاہے۔ پاکستان کی پہچان اب محض ایک دفاعی مستقر کی نہیں بلکہ اسے معاشی امکانات اور مستقبل کی قابل ذکر معاشی قوت کے حامل ملک کے طور پر دیکھاجانا شروع ہوچکاہے۔

وزیراعظم عمران خان سے لے کر وزراء تک سب کی توجہ اقتصادی ترقی، برآمدات میں اضافے اور ملک کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے پر ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان کی گفتگو اور بیانات سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ ان کی توجہ کا محور ایک ایسے ریاستی ڈھانچے کی تشکیل ہے جہاں نچلاطبقہ ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہو۔ معاشی ترقی سے محض چند سو خاندانوں کی جاہ وحشمت میں چار چاند نہ لگیں ‘عام شہری کی جھولی میں بھی پھل گرے۔
پسماندہ علاقوں خاص کر خیبر پختون خوا، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں کو صحت کارڈ جاری ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ہر خاندان کے پاس اب علاج کے لیے دس لاکھ روپے کی رقم دستیاب ہے۔ بیس لاکھ معذور افراد کو ماہانہ دو ہزار روپے اساس پروگرام کے تحت دیئے جانے کا اعلان کیا جاچکا ۔اساس پروگرام کے تحت ضرورت مند طلبہ کے لیے وظائف اور بے شمار ایسے پروگرام اس امر کی دلیل ہیں کہ مفلس طبقات کی مدد کے لیے ریاست ایک نظام تشکیل دے رہی ہے اگرچہ یہ نظام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن رفتہ رفتہ موثر ہوتا جائے گا۔
پاکستان کی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے حالیہ دوبرسوں میں خاطر خواہ کام ہوا ۔ کورونا

وائرس کی بدولت بھی ملک میں نئی مہارتیں سیکھنے اور سیکھانے کاعمل تیز ہوا۔ خاص طور پر بینکنگ کے شعبے میں خودکار نظام کو جس تیزی سے اپنایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ڈیجیٹل اکانومی یا نوکری کی طرف راغب ہورہی ہے جس کی کوئی سرحد ہے اور نہ امکانات کی حد۔معیشت کا روایتی ڈھانچہ بدلنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہورہاہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو صنعتی اور زراعت کے شعبے میں تیزی سے اپنایا جارہاہے۔ ٹیکس ہو یا کاروبار‘ خودکار نظام جسے انگزیزی میں ’’آٹومیٹ‘‘ بھی کہا جاتاہے نے روایتی نظام کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔
پاک چین راہداری کے بارے خیال ہے کہ یہ محض ایک سڑک یا کچھ معاشی منصوبوں کا نام ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کو چین سے اسٹرٹیجک قربت کی بدولت معاشی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا ایک غیر معمولی موقع مل رہاہے۔ مثال کے طو ر پر چین فائیو جی ٹیکنالوجی متعارف کراچکا ہے اور پاکستان میں بھی چند ایک ٹیلی کام کمپنیاں اس سروس کو تجرباتی طور پر استعمال کرنا شروع ہوچکی ہیں۔ کئی ممالک کے برعکس فائیو جی کے پاکستان میں متعارف ہونے کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ یہ محض موبائل سروس یا سپیڈ کو بہتر کرنے یا آن لائن مشترکہ طور پر کام کرنے والی ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اس سے

طب کا سارا نظام بدل جائے گا۔ سرجن دور دیس میں بیٹھ کر روبوٹ سے سرجری کرلیا کریں گے۔ معالج اپنے مریضوں کی تشخیص سینسرز سے کرے گا۔ مشینوں سے رابطے آسان اور موثر ہوجائیں گے۔ گاڑیوں کے اندر پیدا ہونے والی خرابی کا قبل ازوقت پتہ چل سکے گا۔صنعتی شعبوں میں وہ تمام خطرناک اور غیر صحت مند کام جو انسان کرتا ہے‘ روبوٹس کے ذریعے انجام پائیں گے۔اس پس منظر میں پاکستان اپنی افراد ی قوت اور بالخصوص نوجوان کی مہارتوں میں اضافے کی کوشش کررہاہے تاکہ مستقبل قریب میں برپا ہونے والے چوتھے صنعتی انقلاب سے مستفید ہوسکے۔
پاکستان کو تنازعات سے بچا کر ایسے ملک کے طور پر پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو تنازعات کے حل میں کردار ادا کرکے فخر محسوس کرتاہے نہ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں۔ افغانستان میں طالبان اور امریکیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھا کر پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اگر سیاسی عزم ہو تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان معرکہ آرائی کا میدان سجنے والا ہی تھا کہ پاکستان کی حکومت نے نہ صرف اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا بلکہ ثالثی کا ڈول ڈالا اور اس آگ کو ٹھنڈا کرانے میں کردار ادا کیا۔

بھارت کو بھی سفارتی اور سیاسی محاذوں پرمسلسل دفاعی پوزیشن میں دھکیلا گیا۔مثال کے طور پر دہشت گردی کا جو الزام بھارت پاکستان پر دھرتاتھا اب وہ خود انہی الزامات کا سامنا کر رہاہے۔کلبھوشن جادھو کی گرفتاری نے اس کی اخلاقی برتری کا جنازہ نکال دیا۔پاکستان کو انتہاپسند ملک قراردلواتے دلواتے وہ خود سرٹیفائیڈ انتہاپسند ملک بن گیا جہاں اقلیتوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔
کل تلک کوئی تصور بھی نہ کرسکتاتھا کہ پاکستان میں روس جیسا ازلی مخالف ملک بھی سرمایہ کاری کرنے پرآمادہ ہوگا۔ اب روس پاکستان ریلوے کی تعمیر کے علاوہ خود پاک چین راہدای کے طرز پر وسطی ایشیائی ممالک ، چین اور پھر پاکستان کے ذریعے گوادر تک ’’گریٹر یوریشین شراکت داری‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کرچکا ہے تاکہ اس خطے میں امریکہ اورچین کا اثرونفوذ کم کرسکے اور اپنی موجودگی کا بھی احساس دلاسکے۔ کیا کوئی تصور کرسکتاتھا کہ پاکستان ایک دن عربوں کی پرچھائی بن کر ایران کے خلاف جاری عالمی رساکشی سے باہر نکل آئے گا۔ اس کا ہمسائیہ اس کے خلوص پر اعتماد کرکے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں سردمہری پیدا کرے گا اور خطے میں پاکستان کے مسائل کم کرنے میں مدد دے گابالخصوص بلوچستان میں۔

امریکہ ، یورپ اورعرب ممالک کی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے سنگیانک کے مسلمانوں کو چین کے خلاف جہاد کے نام پر جنگ وجدل کی دلدل میں دھکیلنے سے انکار کردیاکیونکہ اس کے بھیانک نتائج صرف چینی مسلمانوں کو بھگتنے پڑتے۔
نون لیگ پاکستان کو معاشی مسائل میں ہی نہیں جکڑ کر رخصت ہوئی بلکہ ایف اے ٹی ایف کا تحفہ بھی دے گئی۔ گزشتہ دو برسوں کی محنت نے پاکستان کو بڑی حد تک ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نجات دلادی ہے۔ امکان ہے کہ وہ جلد ہی اس جال سے نکل آئے گا۔ پاکستان اب اپنے جغرافیہ یا بندرگاہوں کو دفاعی یا اسٹرٹیجک شناخت کے بجائے تجارتی اور شراکت دار ی کے عنوانات دینے کی کوشش کررہاہے۔
عقل مند سیاستدانوں سے لے کر دفاعی اداروں کے ذمہ داران تک سب کا لب ولہجہ مفاہمت اور شراکت داری کو خطے میں فروع دینے کا ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو پاکستان کو داخلی طور پر بھی مستحکم کرسکتاہے اور بیرونی دباؤ بھی کم کرنے کا باعث ہوگا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں