ٹرمپ نہیں نسل پرست ہارے،سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

نفرت اور شرانگیزی کی علامت صدر ڈونلڈٹرمپ کا اقتدار تمام ہوا۔ہونا ہی چاہیے تھا۔ اسلاموفوبیا کو انہوں نے بھڑکایا۔ امریکہ کی سرزمین مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے تنگ کی۔ اسرائیل جوارض فلسطین پر نہ صرف قابض ہے بلکہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہاہے کی پیٹھ ٹھونکی۔ ہمت اور شجاعت سے عاری عرب

ریاستوں کے حکمرانوں کو ہانک کر اسرائیل کے قدموں میں ڈھیڑ کرایا۔ کشمیر میں گزشتہ پندرہ ماہ سے انسانی تاریخ کا بدترین باب رقم ہورہاہے لیکن ٹرمپ کے کانوں پر جون تک نہ رینگی۔ ایران جسے بارک اوباما اور یورپی یونین نے ایک سمجھوتے کے تحت دوبارہ عالمی معاملات میں شراکت دار بنایا تھا محض چند علاقائی ممالک اور شخصیات کی انا کی تسکین کی خاطر اسے دیوار کے ساتھ لگایا۔ بھوک اور افلاس آٹھ کروڑ ایرانیوں پر مسلط کردی گئی۔
ٹرمپ کی سیاسی کامیابیوں نے دنیا میں نسل پرست اورلسانی گروہوں کی ہمت بڑھائی۔ یورپ میں ایسی جماعتیں اور گروہ مقبول ہونا شروع ہوگئے تھے جو کثیر النسل معاشروں کے دشمن ہیں۔سفید فام نسل کی دنیا پر با لادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں دنیا پر حکومت اور قیادت کا منصب سفید فام نسل کا حق ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ میں مسلمان خواتین ارکان کی تضحیک کرنے کا ٹرمپ موقع تلاش کرتے رہتے تھے۔ مودی اور ان کی جماعت کو ٹرمپ انتظامیہ سے غیر معمولی حمایت ملی اس نے بھارت کے اندر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حیات اجیرن کی۔ٹرمپ کو انسانی حقوق ، سیاسی اور اظہاررائے کی آزادی سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات عزیز تھے۔ وہ ایک سرتاپا کاروباری شخصیت تھے کار سلطنت کاروباریوں کا کام نہیں۔
جوبائیڈن کی صدارت میں دودھ وشہد کی نہریں بہنے کی توقع نہیں لیکن کم ازکم امریکہ جس طرح داخلی تقسیم کا شکار تھا وہ سست پڑھ جائے گی۔ شہریوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو زہر ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے بھرا، اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔مخالف سیاستدانوں کی انہوں نے بھداڑائی۔ میڈیا کی ہتک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ساتھیوں کو نکٹو اور چمپے جیسے نازیبا الفاظ سے پکارتے۔بے شمار قابل مگر مختلف نقطہ نظر رکھنے والی شخصیات کو انہوں نے کھڑے کھڑے اعلی عہدوں سے چلتاکیا۔ دنیا کے لیے وہ ایسی مثالیں قائم کررہے تھے جو خطرناک تھیں اور معاشروں کو تقسیم کرنے اور شہریوں کو باہم دست وگریبان کرنے پر منتج ہوتی تھیں۔
بائیڈن نے کملاہیرس کو نائب صدر کے طور پر منتخب کراکر دنیاکے جمہوریت پسندوں اور تکثیریت کے حامیوں کو مثبت پیغام دیا۔ یہ پہلی خاتون نائب صدر ہیں۔ وہ بھی سیاہ فام ،جنوبی ایشیائی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ بارک اوباما کی صدارت کے اختتام کے بعد ایسا گمان ہوتا تھا کہ اب سفید فام امریکی کبھی کسی دوسری نسل کے سیاستدان کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیں گے لیکن کملا کے انتخاب سے امریکیوں کے خواب اورامیدیں سب جاگ اٹھیں۔ابھی یہ واضح نہیں کہ بائیڈن امریکی پالیسیوں میں کیا بنیادی تبدیلیاں لائیں گے کیونکہ حالیہ الیکشن میں منشور اور اصولوں پر مباحثہ بہت کم ہوا۔ پاکستان کے الیکشن کی طرح ٹرمپ نے امریکی سیاست میں ذاتیات اور شخصی حملوں کو رواج دیا۔انہوں نے بائیڈن پر ذاتی رکیک حملے کیے،انہیں کرپٹ تک کہا۔امریکی اسٹبلشمنٹ کو ان کا حامی قراردیا۔ بائیڈن کی کامیابی کو چین کی کامیابی قراردیا۔چنانچہ پالیسی کے امور پر مباحثہ کم ہوا۔ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی فکر اور بائیڈن کے سیاسی نظر یات کے پس منظرمیں یہ امکان ظاہر کیا جاسکتاہے کہ ایران کے ساتھ وہ لچک دار طرزعمل اختیارکریں گے ۔ قومی امکان ہے کہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں کم یاتمام ہوجائیں گی۔ مشرق وسطی کی سیاست پر اس کے گہرے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور عرب ریاستوں کے ہوش بھی ٹھکانے آجائیںگے جو آج کل پاکستانی لیبر ز کو کھڑے کھڑے دیس نکالا سناتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے غالباً کچھ زیادہ نہیں بدلے گا۔ امریکی فورسز افغانستان میں موجود ہیں اور جلد امن کے امکانات کم ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو افغانستان میں امن کے تناظر میںہی بائیڈن انتظامیہ دیکھتی رہے گی۔البتہ بائیڈن غالباً ٹرمپ کے برعکس یک دم اور مکمل امریکی فوج کے انخلا کی اجازت نہیں دیں گے، جو پاکستان کی خواہش بھی ہے اور ضرورت بھی۔ کیونکہ امریکہ کی مدد کے بنا افغانستان میں متحارب دھڑوں کو خانہ جنگی سے باز رکھنا ناممکن نظر آتاہے۔چین کے خلاف بائیڈن بھی ٹرمپ ہی کی طرح سخت گیر پالیسی کے علمبردار ہیں۔یہ وہ نکتہ ہے جہاں امریکہ اور بھارت فطری اتحادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ غالباً چین کے خلاف گزشتہ کئی عشروں سے جاری سرد جنگ میں نہ صرف تیزی آنے کا امکان ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوسکتاہے کیونکہ ٹرمپ کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی طاقت کا استعمال کرنے کی طرف زیادہ مائل رہی ہے۔ چنانچہ پاک چین اقتصادی راہداری ٹرمپ ہی کی طرح بائیڈن انتظامیہ کو بھی ایک آنکھ نہیں بہائے گی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی توقع عبث ہوگی۔البتہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں پر بھارت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔امریکی انتظامیہ نے اگر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا تو اس کے مثبت اثرات یورپی یونین پر بھی ہوں گے اور کشمیریوں کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔
حرف آخر: امریکہ کا الیکشن محض کسی ایک ملک کا انتخابی معرکہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامہ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر ملک امریکی فیصلوں سے متاثر ہوتاہے۔اس لیے ہم سب کی نظریں امریکی الیکشن پر گزشتہ کئی ہفتوں سے اس طرح جمی ہوئی تھیں، جیسے لاہور میں الیکشن کا معرکہ درپیش ہو۔ بے چارے ٹرمپ پرترس آتا ہے۔انہیں اردو زبان پر عبور ہوتا تو بہادر شاہ ظفر کی شاعری کنگناکر دل کا بوجھ ہلکا کرتے یا پھر غالب کا یہ شعر ٹویٹ کرتے ؎؎ ؎ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں