اسلام آباد(پی این آئی)سینئر کالم نگار حسن نثار اپنے کالم ’’ چند خوب صورت خبریں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دو یا شاید تین ہفتہ قبل میں نے ’’میرے مطابق‘‘ میں کہا تھا کہ کرونا تتلیوں، جگنوئوں، چڑیوں، طوطوں کی بددعائوں کا نتیجہ ہے۔ انسان نے اشرف المخلوقات ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا جس سے بے شمار معصوم
جانداروں کو شدید نقصان پہنچا لیکن آج مورخہ 18اپریل 2020ء بروز ہفتہ ڈپٹی ڈائریکٹر تحفظ جنگلی حیات کا یہ بیان پڑھ کر جی خوش ہو گیا کہ لاک ڈائون سے آلودگی میں کمی ہونے سے روٹھے ہوئے پرندے شہروں کی طرف پلٹنے لگے ہیں۔’’لان میں ایک بھی بیل ایسی نہیں جو بدیسی پرندے کے پر باندھ لےجنگلی آم کی جان لیوا مہک جب بلائے گی واپس چلا آئے گا‘‘شہروں سے روٹھے ہوئے سبز کبوتر، لال چونچ والی چڑیائیں، فاختائیں واپس آ رہی ہیں تو سب کو ان کی واپسی مبارک ہو۔ا ﷲ کرے تتلیاں، جگنو بھی مان جائیں کہ ان کا بھی اس دھرتی پہ اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا۔ عدیم ہاشمی مرحوم نے جانے کس موج اور ترنگ میں یہ مہکتا اور ہمکتا شعر کہا تھااسے پسند ہیں پھول اور تتلیاں، جگنومیں اب کی بار پرندوں کے پر بھی لائوں گاخوبصورت گھر، عمدہ گاڑی، ایئر کنڈیشنڈ ماحول، ڈیزائنرز کپڑے، آرام دہ جوتے، بینک بیلنس وغیرہ بھی ضروری ہوں گے لیکن اتنے ضروری بھی نہیں کہ انسان مردار خور گدھوں کا بھی قتل عام شروع کر دے۔ قارئین کو شاید یقین نہ آئے اور یہ حقیقت افسانہ لگے کہ ہماری حرکتوں کی وجہ سے گدھ بھی ناپید ہوتے جا رہے تھے جس کا سب سے بڑا اور شرمناک ترین ثبوت یہ ہے کہ اب لاہور کے قریب چھانگا مانگا میں سرکاری سطح پر گدھوں کی باقاعدہ ’’فارمنگ‘‘ کی جا رہی ہے تاکہ اس پرندے کی حفاظت اور تعداد میں اضافہ کو یقینی بنایا جا سکے۔ بے شک گدھ دیکھنے میں بہت ڈرائونا اور گھنائونا ہے، اس کی آواز بھی انتہائی مکروہ ہے لیکن اس کرئہ ارض پر تھوڑا سا حق تو اس بدشکلے کا بھی ہے لیکن ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے والوں کے لئے گدھ کے حقوق کیا معنی؟ تو اتنا ہی سوچ لیتے کہ یہ مردار خور قسم کی مخلوق بھی انسان کی ’’ضرورت‘‘ ہے۔ مائوزے تنگ کے حکم پر چین میں چڑیوں کی شامت آ گئی لیکن جرم ان کا یہ تھا کہ دانہ چگتی تھیں، اناج ’’ضائع‘‘ کرتی تھیں لیکن جب معلوم ہوا کہ وہ ’’حرام‘‘ نہیں کھاتی تھیں بلکہ ایسے کیڑے مکوڑے کھانے کی ’’ڈیوٹی‘‘ بھی دیتی تھیں جو فصلوں کیلئے نقصان دہ ہوتے ہیں تو ٹھنڈ پڑ گئی۔بنانے والے نے یہ دنیا صرف انسان اور اس کی بے لگام ہوس ہی کیلئے نہیں بنائی، اس میں اس کے اربوں کھربوں حصہ دار بھی ہیں لیکن انسان تو ایک دوسرے کے حصہ پر ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آتا تو باقی دیدہ نادیدہ مخلوقات کس کھاتے میں؟ لیکن کبھی نہ کبھی تو بے آواز لاٹھی نے حرکت میں آنا ہی ہوتا ہے۔ بے آواز اور بے چہرہ لاٹھی!اربوں سال بیت گئے۔ انسان کو یہاں رہنا اور ایک دوسرے کے ساتھ برتنا نہیں آیا۔ کچھ عرصہ سے تو یہ مخلوق ٹیکنالوجی کے نام پر باقاعدہ وحشی ہو گئی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اور کسی کا وعظ نہ سننے والے کرونا کا وعظ سنتے ہیں یا نہیں؟ میرے نزدیک یہ سزا نہیں—پہلی باقاعدہ اور سنجیدہ قسم کی وارننگ ہے کیونکہ سزا کے تو ہم متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ کون افورڈ کر سکتا ہے کہ پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند بکھر جائیں اور زمین بوسیدہ ترین کپڑے کی طرح پھاڑ دی جائے۔ ہم جیسے غیر ترقی یافتہ جنہیں ’’کرٹسی‘‘ کے طور پر ’’ترقی پذیر‘‘ کہا جاتا ہے تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں—پ اصل امتحان اس نام نہاد ترقی یافتہ دنیا کا ہے جس نے ٹٹیریوں کی مانند زمین ہی نہیں، آسمان بھی سر پہ اٹھا رکھا تھا اور آج سر پکڑ کے بیٹھی
ہے۔ یہاں مجھے سپرپاور کے سر پھرے صدر کی وہ ٹویٹ یاد آ رہی ہے جس کا مفہوم یہ تھا کہ امریکہ سپیس میں اپنی واضح برتری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔چالو قسم کا شعر ہے جو عشروں پہلے بچے مباحثوں میں استعمال کرتے تھےبہتر ہے مہ و مہر پہ ڈالو نہ کمندیںانساں کی خبر لو کہ جو دم توڑ رہا ہےکل تک ان کی بڑھکیں نہیں گنی جاتی تھیںآج لاشیں نہیں گنی جا رہیںالامان الحفیظیا حفیظ یا سلامعرصہ بعد آج کے اخبار دیکھ کر کچھ سکھ ملا۔ پہلا سکھ یہ کہ آلودگی کم ہونے پر روٹھے ہوئے پرندے شہروں کی جانب لوٹ رہے ہیں اور دوسری خوشی اس بات پر کہ نڈھال سٹاک مارکیٹ ICUسے نکلتی دکھائی دیتی ہے، ڈالر سستا ہو گیا، سونا سستا ہونے لگا۔ اسے کہتے ہیں کبڑے کو لات کا راس آ جانا۔ امریکہ سے لے کر IMFتک ’’مہربان‘‘۔ سعودیہ کی طرف سے بھی 20ارب ڈالرز معاہدوں کی منظوری اور ان سب سے بڑھ کر وہ دو آرڈیننس جن کے بعد کنسٹرکشن جیسی کثیر الجہت صنعت کو سانس اور سہولت ملے گی اور ذخیرہ اندوزوں، سمگلرز کو سزائیں ملیں گی تو سوچتا ہوں کہ سزائوں کی تو پہلے بھی کمی نہ تھی، مزید بڑھا دیں لیکن یہ ملتی بھی تو دکھائی دیں اور پھر سزائوں کے ملنے کی رفتار کا بھی شاید کوئی رول ہوتا ہو۔سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کیلئے خفیہ اداروں کی خدمات والا خیال بھی خوب ہے، نتیجہ جو بھی ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عرصہ بعد چند خوب صورت خبریں بھی پڑھنے کو ملیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں