سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں ملکی صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا طارق جمیل کو اگر ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے تو حیرت کی بات نہیں ہو گی ۔۔۔ سہیل وڑائچ لکھتے ہیں ۔۔۔۔ عزت ہو تو ایسی، احترام ہو تو ایسا، قدر ہو تو ایسی، مقام ہو تو ایسا، تعظیم
ہو تو ایسی، اعزاز ہو تو ایسا، مقبولیت ہو تو ایسی، وہ جہاں جاتے ہیں دروازے کھل جاتے ہیں،ہر جگہ انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ نواز شریف کے ہاں جائیں تو وہ صدقے واری جاتے ہیں، عمران خان سے ملنے جائیں تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ بیگم کلثوم نواز کا جنازہ پڑھانا ہو یا کسی شادی کی شان بڑھانی ہو قرعۂ فال انہی کے نام کا نکلتا ہے۔ ہر طرف ان کے فسوں کا دور دورہ ہے سب ان کو مانتے ہیں اور سبھی ان کی مانتے ہیں۔ گجرات کے چودھری ہوں، جاتی امرا کے شریف ہوں، بنی گالہ کے نیازی ہوں یا پھر بے نام طاقتور، سب گھروں میں نہ صرف ان کا آنا جانا ہے بلکہ ہر جگہ ان کی مانی جاتی ہے۔پورے پاکستان میں ان جیسا متفق علیہ کوئی اور نہیں۔ نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے مگر حضرت مولانا کے لئے دونوں آنکھیں بچھاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور (ن)لیگ کے درمیان کشیدگی کوئی خفیہ راز نہیں مگر دونوں سے آپ کے تعلقات آشکار ہیں۔ علما اور شوبز ستاروں کے طرزِ زندگی اور اندازِ فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر آپ کے لئے دونوں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، پنجگانہ نماز پڑھنے والے باریش و باحیا بزرگ ہوں یا اسٹیج و تھیٹر پر جلوہ گر ہونے والی نازنینیں، سب ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہونے کو سعادت سمجھتی ہیں۔ ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جلتا رہا ہے اب بھی مختلف مکاتبِ فکر میں بحث مباحثے جاری رہتے ہیں مگر آپ ان کے درمیان سے ایسی راہ نکالتے ہیں کہ سبھی آپ سے خوش رہتے ہیں اور واہ بھئی واہ کرتے ہیں۔ جناب کی تقریر اور پھر اس کے پُراثر ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ عام طور پر کئی مقرر غم کے موقع پر اچھی تقریر کرتے ہیں اور کئی دوسرےخوشی کے موقع پر لوگوں کو اور نہال کر دیتے ہیں مگر حضرت کی شیریں زبانی کو وہ درجہ کمال حاصل ہے کہ آپ غم زدوں کو جب چاہیں اور غمناک کر دیتے ہیں اور جب چاہیں خوشیاں بکھیر کر محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے ہیں۔ آپ کے بارے میں ہر طرف سے ایک ہی آواز آتی ہے اور وہ ہے واہ بھئی واہ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے عہد میں ایسا یگانۂ روزگار شخص موجود ہے جسے سرکار دربار میں بھی رسوخ حاصل ہے اور غریب عوام بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں جا کر بھی وعظ و نصیحت کرتا ہے اور غریبوں کے اجتماع میں بھی تلقین و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ جنید جمشید شہید جیسے نامور گلوکار، انضمام الحق اور سعید انور جیسے مایہ ناز کرکٹرز، نرگس اور وینا ثقہ ملک جیسی اداکارائیں ان کے مداحین میں شامل ہیں اور تو اور یہ عامی لکھاری بھی حضرت مولانا کا مداح ہے، کئی بار ان سے ایک دن جیو کے ساتھ کا مہمان بننے کی درخواست کر چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک کالم میں ان کے رسوخ سے کسی کو کرکٹ کی کپتانی ملنے کا ذکر کیا تو انہوں نے خود فون کر کے وضاحت کی کہ وہ عمران خان سے کسی کی سفارش کرنے نہیں جاتے بلکہ دین کی بات کرنے جاتے ہیں۔ ان کا اس عامی لکھاری سے پہلے بھی رابطہ رہا ایک بار انہوں نے مہیش بھٹ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور
سابقہ بار ڈانسر شگفتہ رفیق کا انٹرویو سن کر مجھے فون کیا تھا اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کا نمبر انہیں دیا جائے تاکہ وہ اسے بھی وعظ و نصیحت کر سکیں۔حضرت مولانا کی عمران خان کے ساتھ شائع ہونے والی تصویر کورونا کے خطرے سے بچنے کے طریقہ کار کا شاندار نمونہ ہے۔ حضرت صاحب اور وزیراعظم عمران، مصافحے اور معانقے کے بغیر مسکراہٹوں سے ایک دوسرے کا دل جیت رہے ہیں۔ یہ تصویر پورے پاکستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال ہے کہ ہم کس طرح آج کے پُرآشوب دور میں کورونا کے فتنے سے بچ سکتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ وزیراعظم کورونا خطرے سے بچنے کے لئے حضرت مولانا کے ٹی وی اور ریڈیو پر خطاب کا براہِ راست انتظام کریں تاکہ وہ اسلامی احکامات کی روشنی میں کورونا سے بچائو کے لئے رشد و ہدایت دے سکیں اور یوں اس عمل سے ساری امتِ مسلمہ کا بھلا ہو جائے۔مولانا کا تعلق ضلع خانیوال کے علاقہ تلمبہ سے ہے۔ ماشاء اللہ سے خود جاگیردار اور زمیندار ہیں۔ ان کے نامور ہونے سے پہلے تلمبہ ناچ گانے اور رقص و سرور کے مرکز کے حوالے سے مشہور تھا مگر آپ کے علم و فضل کی شہرت کے بعد سے تلمبہ ان کے مبارک نامِ نامی سے منسوب ہو گیا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں متفقات بہت کم ہیں۔ ہر چیز پر اختلاف، ہر معاملے پر جھگڑا، سیاست میں اختلاف، معیشت پر لڑائی، سماجی معاملات میں تفرقہ، غرضیکہ ہر ایشو پر ہی تنازع ہے، ایسے میں کیا یہ خوش قسمتی نہیں ہے کہ مولانا جیسی شخصیت پر ہر طبقہ فکر میں اتفاقِ رائے موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن ان کے ہم مکتب فکر
ہیں، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور مجلسِ وحدت مسلمین جیسی مذہبی جماعتوں کو مولانا سے کوئی بڑا اختلاف نہیں، تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت ان کی مداح ہے، بلاول اور زرداری ابھی تک مولانا سے ملے نہیں ہیں، ملیں گے تو اُن کے حسنِ اخلاق کے نہ صرف گرویدہ ہوں گے بلکہ ان کے پکے مرید بن جائیں گے۔حضرت مولانا پر قومی اتفاق کے باوجود اُن کی خدمات اور صلاحیتوں سے فائدہ نہ اُٹھانا میری رائے میں زیادتی ہے اس سیاسی اتفاق رائے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا کو صدر یا وزیراعظم بنا دیا جائے تاکہ یہ منتشر شدہ معاشرہ متحد ہو سکے۔ یہ تفرقے بازی ختم ہو اور ہم جسدِ واحد کی طرح ملت اسلامیہ کا موثر حصہ بن سکیں۔ مثال کے طور پر سوات کے والی میاں گل خاندان کا قصہ کچھ یوں ہے کہ سوات کی سرداری کے لئے سرپھٹول جاری تھا، کسی نام پر اتفاق نہیں ہو پا رہا تھا، ایسے میں سب سے قابلِ عزت مذہبی اور روحانی شخصیت میاں گل خاندان کے سربراہ کو متفقہ سردار بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور وہ فیصلہ درست بھی ثابت ہوا کہ کئی صدیوں کے گزرنے کے باوجود اس خاندان کو اب بھی مقدس و محترم جانا جاتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ مولانا ایسے نابغہ علم و فضل اور صلح کل شخص کو ملک کا اہم ترین عہدہ دے کر ہم پاکستان کو مادی اور روحانی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان حوصلہ کریں اور یہ فیصلہ فوراً کر ڈالیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں