اسلام آباد (پی این آئی) اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر سردار یاسر الیاس خان نے کہا کہ پاکستان میں کارپوریٹ سمیت تقریبا 23لاکھ ٹیکس ریٹرن جمع کرائے جاتے ہیں اور کم ریٹرن جمع کرائے جانے کی ایک اہم وجہ ٹیکس دہندگان کے بارے میں ایف بی آر کے سخت قوانین ہیں جن کی وجہ سے عام
شہری یہ سمجھتا ہے کہ ایک بار ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے زندگی بھر کیلئے مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشکل ٹیکس قوانین کو آسان بنانے کی بجائے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کر کے فنانس ایکٹ 2020 کے تحت ٹیکس دہندگان کیلئے اپنے پروفائل جمع کرانا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے حالانکہ ٹیکس دہندگان کے بارے میں ہر قسم کا ذاتی ڈیٹا ٹیکس ریٹرن میں فراہم کر دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پروفائل جمع نہ کرانے والوں کو ایکٹو ٹیکس دہندگان کی لسٹ سے خارج کرنے کے ساتھ ساتھ جرمانے اور دیگر سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے وفاقی وزیرخزانہ حفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر محمد جاوید غنی سے اپیل کی کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر ٹیکس دہندگان کے پروفائل جمع کرانے کے فیصلہ پر نظرثانی کروائیں۔ سردار یاسر الیاس خان نے مزید کہا کہ پراپرٹی کی خریدوفروخت کرنے والوں پر بھی اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین لاگو کر دیئے گئے ہیں جس سے نہ صرف تاجر برادری مزید مشکلات کا شکار ہو گی بلکہ وزیراعظم کی طرف سے اعلان کردہ کنسٹریکشن پیکج سے استفادہ حاصل کرنا دشوار ہو جائے گا اور یہ پیکج اپنی اہمیت کھو دے گا جس سے تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی۔ آئی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ پاکستان بھر میں اطلاعا بجلی کے تقریبا
80لاکھ کمرشل میٹرز ہیں جبکہ تقریبا 30لاکھ سے زائد انڈسٹریل یونٹس کام کر رہے ہیں لیکن صرف 23لاکھ ٹوٹل ٹیکس ریٹرن جمع ہوتے ہیں جو حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمرشل میٹرز کا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہے اور سب کو ریگولیرائز کیا جا سکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ ایف بی آف کی پالیسی موجودہ ٹیکس دہندگان کو ہی نچوڑنے پر مرکوز ہے جو ملک میں مہنگائی کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ٹیکس قوانین کو آسان بنا نے پر توجہ دے تا کہ عوام ٹیکس نیٹ میں آنے میں ترغیب محسوس کریں کیونکہ موجودہ ٹیکس قوانین ٹیکس نیٹ کو فروغ دینے کی بجائے لوگوں کو ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے پر مجبور کر رہے ہیں جو ملک کی معیشت کیلئے بہتر نہیں ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں