پاکستان میں سولر پینلز کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ، لوڈشیڈنگ اور مہنگے بلوں نے گھریلو اور تجارتی صارفین کو متبادل توانائی کی طرف راغب کیا ہے۔
انرجی ماہر انجینیئر نور بادشاہ کے مطابق اب پاکستان میں مقامی اسمبلی اور مینوفیکچرنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی کمپنی نیٹ لائن نے ترک کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر میں اسلام آباد کے مضافات میں تقریباً 180 میگاواٹ سالانہ صلاحیت کے سولر پینل بنانے والی فیکٹری کا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کی لاگت تقریباً 30 ملین ڈالر ہے۔ یہ پروجیکٹ تین مراحل میں مکمل ہو رہا ہے اور سنہ 2026 تک فعال ہونے کی توقع ہے، جس سے ‘میڈ ان پاکستان سولر پینلز’ کی تیاری ممکن ہوگی اور درآمدات پر انحصار کم ہوگا۔
اسی طرح، پنجاب حکومت نے اگست 2024 میں چینی کمپنی AIKO کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت صوبے میں ایک بڑا اسمبلی اور مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کیا جائے گا۔ انجینیئر کامران رفیق کے مطابق جب اسمبلی لائنیں چلیں گی اور خام مال کی رسائی بہتر ہوگی تو قیمتوں میں کمی ممکن ہوگی، امپورٹ پر انحصار کم ہوگا اور مارکیٹ مارجنز بہتر ہوں گے۔
حکومت نے سنہ 2025-26 کے بجٹ میں مکمل تیار سولر پینلز پر ٹیکس استثنیٰ دیا ہے اور اسمبل کیے گئے اجزا پر 10 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا ہے، تاہم ڈسٹری بیوٹرز تنصیب، ترسیل اور دیگر خدمات کے نام پر اضافی چارجز وصول کرتے ہیں، جس کی وجہ سے صارف کو بجٹ میں طے شدہ قیمت سے زیادہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
انجینیئر شرجیل احمد سلہری کے مطابق 3 کلوواٹ کے گرڈ ٹائیڈ سولر سسٹم کی قیمت اس وقت اوسطاً 90 ہزار روپے فی کلوواٹ ہے، جبکہ ہائبرڈ سسٹم کی لاگت ڈیڑھ لاکھ سے ایک لاکھ 70 ہزار روپے فی کلوواٹ کے درمیان رہتی ہے۔ اس میں صرف پینلز کی قیمت شامل نہیں بلکہ جدید انورٹرز، وائرنگ، انسٹالیشن اور وارنٹی کی لاگت بھی شامل ہوتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں