کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اگلے دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ تمام معاشی اعشاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ مئی اور جون کے دوران مہنگائی میں معمولی اضافہ ہوا، تاہم اپریل میں مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر تھی۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 7.2 فیصد ہے اور امکان ہے کہ رواں مالی سال میں یہ شرح 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق، ایکسپورٹس میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال میں ترسیلات زر 30 ارب ڈالر تھیں، جو اب 38 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ رواں مالی سال میں ترسیلات زر 40 ارب ڈالر سے زائد رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران تمام غیر ملکی ادائیگیاں وقت پر کی گئیں، اور زرمبادلہ ذخائر میں 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ گروتھ ریٹ 2.7 فیصد رہا، اور رواں مالی سال میں یہ شرح 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہنے کی امید ہے۔ جمیل احمد نے زرعی شعبے کی بہتری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پانی کی بہتر دستیابی اور بارشوں کے باعث زرعی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے، جو مجموعی معاشی نمو میں مددگار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، جس کے باعث مہنگائی پر دباؤ برقرار رہ سکتا ہے۔ تاہم معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قومی پیداوار کے 4 فیصد سے زائد تھا، لیکن ترسیلات زر میں 8 ارب ڈالر اضافے کی بدولت اب کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا ہے۔ گورنر کے مطابق، زرمبادلہ ذخائر 26 ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے باوجود 5 ارب ڈالر بڑھے ہیں، جو ایک مثبت اشاریہ ہے۔ حکومت کا کل قرضہ 100 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، جو 2015 سے 2022 کے دوران 55 ارب ڈالر سے بڑھا تھا۔ جمیل احمد نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں توسیع ہوئی ہے، اور ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی معاشی درجہ بندی بہتر کی ہے، جو بین الاقوامی اعتماد کی علامت ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں