اسلام آباد(پی این آئی)سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان میں سونے کے کاروبار سے کوئی ٹیکس حاصل نہیں کیا جاتا جبکہ تنخواہ داروں اور عام شہریوں پر ٹیکس کا سارا بوجھ لادا جاتا ہے ‘ دنیا نے ٹیکس نیٹ بڑھایا ہے، ہم بھی یہ کرسکتے ہیں۔
رواں مالی سال کو بھی ضائع کردیا گیا کیونکہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جاسکتا تھا، ہم غریبوں سے جی ایس ٹی وصول کرتے ہیں لیکن امیروں سے پراپرٹی ٹیکس نہیں لے سکتے. انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ اور زراعت جیسے شعبوں کو مزید ٹیکس چھوٹ نہیں دی جاسکتی نیشنل فنانشل کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر نظر ثانی کیے بغیر کوئی ریفارم کامیاب نہیں ہوگی وفاق کے پاس فنڈز نہیں لیکن صوبوں میں صورتحال مختلف ہے. نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کے لیے ان شعبوں پر ٹیکس لگانا ہوگا جنہیں اب تک چھوٹ دے رکھی ہے، رئیل اسٹیٹ اور زراعت جیسے شعبوں کو مزید چھوٹ نہیں دی جاسکتی، ٹیکس کسی کے زیر استعمال مکان پر نہیں ہے، اضافی جائیداد پر ہوتا ہے۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ شعبے میں جائیداد کے مختلف ریٹس کو ختم کر دینا چاہیے ریٹیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز ٹیکس دینے کے موڈ میں ہی نظر نہیں آتے انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہیے، صورتحال یہ ہے کہ سونے کے کاروبار سے کوئی ٹیکس حاصل نہیں کیا جاتا، تنخواہ داروں پر مزید ٹیکس کی گنجائش نہیں. مفتاح اسماعیل نے کہا کہ دنیا نے ٹیکس نیٹ بڑھایا ہے ہم بھی یہ کرسکتے ہیں، رواں مالی سال کو بھی ضائع کردیا گیا کیونکہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جاسکتا تھا ہم غریبوں سے جی ایس ٹی وصول کرتے ہیں لیکن امیروں سے پراپرٹی ٹیکس نہیں لے سکتے. انہوں نے کہا کہ کراچی کے سوا پورے ملک کے 22 لاکھ دکانداروں میں سے صرف 30 ہزار ٹیکس دیتے ہیں 2 سال پہلے میری سفارش پر ریٹیل پر ٹیکس لگتا تو آئی ایم ایف ڈکٹیٹ نہ کرتا سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ فکسڈ ٹیکس کا نظام لانا چاہیے، ریٹیلرز پر 3 سے 4 ہزار ٹیکس لگانا ہوگا۔
ریٹیلر سے سیلز ٹیکس نہ لیں، سیلز ٹیکس کا صنعتی سطح پر نفاذ کریں انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں 9 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ایک سال میں مزید 1 کروڑ کا اضافہ ہوگا، فری میں قوم کی خدمت بھی نہیں ہوسکتی، ٹیکس تو تمام شعبوں کو دینا ہوگا. مفتاح اسماعیل نے کہا کہ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس آمدن بڑھانا اور اخراجات میں کٹوتی کرنی ہوگی، خسارے کم نہیں کریں گے تو بھوک اور جہالت میں اضافہ ہوگا انہوں نے کہا کہ ٹیکس دینا کسی کواچھا نہیں لگتا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی رواں سال 10 فیصد تک پہنچ جائے گا لیکن یہ اب بھی کم ہے، زراعت پر فکس ٹیکس ہونا چاہیے، بڑے کاشت کار سے ہم تھوڑا سا ٹیکس تو لے سکتے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ پر اسٹیمپ ڈیوٹی مارکیٹ قیمت پر ہونی چاہیے، ان ڈاکیومنٹڈ پیسا پراپرٹی میں جا کر پاک ہو جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ٹھیلے والا پولیس کو روز 100 روپے بھتا دیتا ہے، دکانداروں کو ہراساں کرنے کے بجائے اسمگلنگ کو سرحد پر روکیں. مفتاح اسماعیل نے کہا کہ نان فائلرز کو گاڑیاں اور پراپرٹی خریدنے نہ دیں، دوسرے سال پاسپورٹ بنانے نہ دیں، جس دکان کو بجلی دے رہے ہیں اس سے ٹیکس لیں ورنہ بجلی کاٹ دیں انہوں نے کہا کہ 2 ملین ٹن گندم افغانستان اسمگل ہوجاتی ہے مگر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں گندم کا مسئلہ افغانستان اسمگل نہ ہونے کی وجہ سے ہوا، انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمت کم ہونے کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کے بجائے انٹرنیشنل مارکیٹ سے گندم خریدی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں