اسلام آباد (پی این آئی) وفاقی حکومت نے ’سولر پینل لوکل مینوفیکچرنگ اینڈ الائیڈ ایکوئپمنٹ‘ پالیسی کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے جس کے تحت مینوفیکچررز کو10 سال کیلئے کچھ مراعات دی جائیں گی، جس میں لوکلائزیشن کو فروغ دینے کے لیے تیار سامان کی درآمد پر ٹیرف کا نفاذ بھی شامل ہے۔
باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی ) نے 8 اور 9 ستمبر 2023 کو ہونے والی اپنی 5ویں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ورکنگ گروپ کے اجلاسوں میں مشاورت کے ذریعے ”سولر پینل لوکل مینوفیکچرنگ پالیسی“ بنانے کی ہدایت کی۔اس سلسلے میں ”سولر پینل لوکل مینوفیکچرنگ پالیسی“ پر ورکنگ گروپ کے کئی اجلاس منعقد ہوئے۔متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد، ممکنہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ملک کے اندر مقامی کھپت اور برآمدات کے لیے مطلوبہ سولر پینلز کی تیاری کی صلاحیت کی تنصیب کے لیے سرمایہ کاری کی تجویز پر ”سولر پینل اینڈ الائیڈ ایکوپمنٹ مینوفیکچرنگ پالیسی 2024“ تیار کی گئی ہے۔اس سے قبل کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے لیے ”سولر پینل اینڈ الائیڈ ایکوپمنٹ مینوفیکچرنگ 2023“ کے عنوان سے سمری انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن ڈویژن نے تین بار پیش کی تھی۔
آخری سمری 5 جولائی 2023 کو سولر انورٹرز، لیتھیم آئن بیٹریوں، اور سولر اسمبلی، مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے متعلقہ مشینری، آلات کے پرزوں اور اجزاء کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس سے چھوٹ کے حوالے سے پیش کی گئی تھی، تاہم معاملہ ٹال دیا گیا۔ایس آئی ایف سی کی 18 اکتوبر 2023 کو دی گئی مزید ہدایات کے مطابق ورکنگ گروپ کے چار اجلاس بھی وزارت صنعت و پیداوار میں 8 نومبر 2023، یکم جنوری 2024، 26 فروری 2024 اور 27 فروری 2024 کو منعقد کیے گئے تاکہ پالیسی کو مزید بہتر بنانے کے لیے پاکستان میں سولر مینوفیکچرنگ پلانٹ کے قیام کے لیے ممکنہ غیر ملکی سرمایہ کار کی تجویز پر غور کیا جا سکے۔ذرائع نے بتایا کہ اب وضع کردہ پالیسی کے مسودے میں نہ صرف سولر پینلز اور متعلقہ آلات کی مقامی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے خام مال اور مشینری پر ٹیرف اور ٹیکسوں میں چھوٹ کا تصور دیا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد تیار شدہ سولر پینلز اور اس سے منسلک آلات کی درآمد پر ٹیرف میں اضافہ کرنا ہے۔
تاکہ درآمدات پر انحصار کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔مزید برآں، پالیسی کے مسودے میں ایک طویل مدتی، یعنی 10 سالہ مسلسل منصوبہ بھی فراہم کیا گیا ہے جس میں ”سرمایہ کاری کی رقم، پیداواری صلاحیت، برآمدات اور لوکلائزیشن“ کے اہداف کو بڑھانے کی قابل قدر خصوصیات کو شامل کیا گیا ہے، جس کی حمایت ممکنہ سرمایہ کاروں کی طرف سے ٹیرف اور ٹیکس کی چھوٹ کی رقم کے برابر بینک گارنٹی سے کی جائے گی۔مجوزہ پالیسی میں درج ذیل روڈ میپ کی تجویز دی گئی ہے جس کی پیروی کسی بھی سرمایہ کار کو ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں پر مطلوبہ چھوٹ حاصل کرنے کے لیے کی جائے گی۔مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو چھٹے سال اور اس کے بعد اپنی صلاحیت کو ون جی ڈبلیو سے 10 جی ڈبلیو تک بڑھانا ہوگا جبکہ برآمدات فروخت اور مقامی فروخت کا تناسب پہلے سال سے 50:50 فیصد، دوسرے سال 60:40 فیصد، تیسرے سال 70:30 فیصد، چوتھے سال 80:20 فیصد، پانچویں سال 90:10 فیصد اور اگلے دس سال تک اسی طرح چلانا ہوگا۔
پہلے سال کے دوران لوکلائزیشن صفر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، لیکن دوسرے سال 30 فیصد، تیسرے سال 40 فیصد اور چوتھے سال 50 فیصد اور اس کے بعد دسویں سال تک اسی طرح بڑھانی ہوگی۔سرمایہ کاری کی رقم پہلے سال 10 ملین ڈالر، دوسرے سال 20 ملین ڈالر، تیسرے سال 30 ملین ڈالر، چوتھے سال 40 ملین ڈالر، پانچویں سال 50 ملین ڈالر، چھٹے سال 60 ملین ڈالرز اور دسویں سال تک اسی تناسب سے بڑھانی ہوگی۔حکومت نے تیار اشیاء کی درآمد پر پہلے سال 5 فیصد، دوسرے سال 10 فیصد اور دسویں سال تک 15 فیصد ٹیرف لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔سرمایہ کار کی طرف سے ادا کی جانے والی بینک گارنٹی ٹیرف اور ٹیکس میں چھوٹ کی رقم کے برابر ہونی چاہیے۔ذرائع نے بتایا کہ پالیسی میں تجویز کردہ استثنا پالیسی میں بتائی گئی لوکلائزیشن اور برآمدات کے روڈ میپ کے مطابق مینوفیکچرر کی طرف سے بزنس پلان کو جمع کرانے اور اس کی منظوری پر دستیاب ہوگا۔
مجوزہ مراعات لوکلائزیشن اور برآمدات کے اہداف کے حصول سے مشروط ہوں گی۔لوکلائزیشن اور ایکسپورٹ کے اہداف حاصل نہ کرنے کی صورت میں ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں پر مراعات واپس لے لی جائیں گی اور وصول بھی کی جائیں گی تاہم، ترغیبات کی واپسی یا بازیابی اس وقت لاگو ہوگی، اگر عدم حصولی اہداف کی قیمت کے 20 فیصد سے زیادہ ہو۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں