لندن (پی این آئی) دنیا بھر میں خام تیل کی طلب بڑھ رہی ہے تاہم اس کے باوجود رسد میں اضافہ اس لیے نہیں ہو پارہا کہ زمین سے تیل نکالنے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز نے لکھا ہے کہ تیل کے نرخ 100 ڈالر فی بیرل کا زمانہ گزر گیا۔
طلب بڑھنے کے باوجود قیمت زیادہ نہیں بڑھ پارہی۔رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات ابھی عشروں تک ہماری زندگی کا حصہ رہیں گی تاہم صارفین کے لیے اس کی قدر پہلے ہی گھٹ چکی ہے۔ ذرا طویل المیعاد بنیاد پر خام تیل کی قیمتوں کا اندازہ لگائیے۔ مستقبلِ بعید میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب اور رسد کے حوالے سے عالمی مارکیٹ ملے جلے رجحانات کی حامل ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے تازہ ترین بحران نے رسد کے حوالے سے غیر معمولی بے یقینی پیدا کی ہے۔ تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک بھی اپنی سوچ بدل رہے ہیں۔ سعودی آرامکو تیل نکالنے والی سب سے بڑی سرکاری کمپنی ہے۔ اس نے یومیہ اضافی 10 لاکھ بیرل خام تیل نکالنے کا منصوبہ روک دیا ہے۔ یہ کمپنی یومیہ ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل تیل نکال رہی ہے۔
اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 82 ڈالر فی بیرل ہے اور اِس کے 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کا امکان کمزور ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بڑی اور منظم و توانا معیشتوں نے ایک عشرے کے دوران اپنی تیل کی کھپت نہیں بڑھائی ہے۔ بیس برس کے دوران چین میں پیٹرولیم مصنوعات کا صَرف دُگنا ہوا ہے۔دوسری طرف امریکا میں پیٹرول کی طلب صرف 8 فیصد بڑھی ہے۔ اگر افراطِ زر کے تناظر میں دیکھا جائے تو خام تیل کی قیمت میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں تیل ایک عشرے پہلے کے مقابلے میں 42 فیصد سستا فروخت ہو رہا ہے۔2007 اور 2011 میں خام تیل کی قیمت کا 100 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہو جانا قابل فہم تھا کیونکہ تب چینی معیشت بہت تیزی سے فروغ پارہی تھی۔ تب چین کو تیل اور معدنیات کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ چین کی طلب کے مقابلے میں معقول رسد ممکن نہیں ہو پارہی تھی۔اب چین کی معیشت بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔
چین میں تیار کی جانے والی کاروں میں سے نصف الیکٹرک ہیں۔ چین کو تیل فراہم کرنے والے سب سے بڑا گروپ اوپیک ہے اور وہ تیل کی رسد کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہے۔مستقبل میں تیل کی طلب کے تعین میں اوپیک کے علاوہ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی اور امریکا کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کا کلیدی کردار ہے۔اوپیک کو اب بھی یقین ہے کہ رواں سال تیل کی طلب 20 لاکھ بیرل یومیہ تک بڑھے گی۔ ایسے میں سعودی آرامکو کا پیداوار بڑھانے سے گریز بہت عجیب لگتا ہے۔ سعودی عرب اور روس مجموعی طور پر 40 لاکھ بیرل یومیہ تک پیداوار بڑھاسکتے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کر رہے۔فائنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ تیل کی رسد آنے والے سال میں قیمتوں کو ایک خاص حد تک رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
دنیا بھر میں تیل کی طلب بڑھنے کے باوجود پیداوار بڑھانے سے گریز کا ایک سبب تو یہ ہے کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک قیمتیں بلند رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ پیداوار بڑھانے کے لیے کی جانے والی خطیر سرمایہ کاری دھری کی دھری نہ رہ جائے کیونکہ کوئی متبادل سستا ایندھن سامنے آنے سے پیٹرولیم مصنوعات کی طلب اچانک اِتنی کم ہوجائے گی کہ لاگت وصول کرنا بھی ممکن نہ رہے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں