لاہور(پی این آئی) تیل و گیس نکالنے والی بیشتر غیر ملکی کمپنیوں نے پاکستان میں آپریشنز بند کر دیے، گزشتہ چند برسوں میں 10 کے قریب بین الاقوامی پیٹرولیم کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں منصوبے بند کیے جانے کی وجہ سے تیل و گیس کی پیدوار میں 50 فیصد تک کمی ہو جانے کا انکشاف۔
پاکستان میں تیل و گیس نکالنے کے لیے مناسب سہولیات کی عدم فراہمی اور سکیورٹی مسائل کی وجہ سے بیشتر غیرملکی کمپنیاں منصوبے چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔اس وجہ سے پیداوار میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ کچھ برسوں میں 10 کے قریب بین الاقوامی پیٹرولیم کمپنیوں نے پاکستان میں تیل تلاش کرنے کے بڑے منصوبے بند کیے ہیں۔اس وجہ سے مقامی سطح پر تیل و گیس کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور پاکستان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا اضافی تیل درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق جہاں ایک جانب تیل و گیس کے شعبہ سے وابستہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے رخصت ہو رہی ہیں، تو دوسری جانب پاکستان کی مقامی کمپنیاں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ملک میں تیل اور گیس کی تلاش کرنے والے سرکاری ادارے مالی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور جی ایچ پی ایل کیلئے سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اداروں کی پیداواری کارروائیاں معطل ہونے اور گیس کی سپلائی بند ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور جی ایچ پی ایل سمیت ملک کے پبلک سیکٹر ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی)ادارے نقدی کے بہاو کے غیر معمولی بحران میں پھنس گئے ہیں جس کی وجہ سے ان سب نے نہ صرف ارضیاتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی کی ہے بلکہ انہوں نے تیل اور گیس کی تلاش کی سرگرمیاں 50 فیصد تک محدود کردی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گیس کمپنیاں، سوئی سدرن اور سوئی ناردرن اب تک 1.361 ٹریلین روپے کی خطیر رقم ادا نہ کرکے او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور جی ایچ پی ایل کو نادہندہ کر چکی ہیں اور اگر ادائیگیاں ہنگامی بنیادوں پر نہ کی گئیں تو پبلک سیکٹر کی ای اینڈ پی کمپنیاں پیداواری کارروائیوں کو معطل کرنے اور گیس کی سپلائی بند ہو نے کا خطرہ ہے۔مذکورہ بحران کے سبب غیرملکی زرمبادلہ کی کمی اور بین الاقوامی ایل این جی سپلائرز کے نرم ردعمل کی وجہ سے انتہائی مہنگی ایل این جی درآمد کرکے پورا نہیں کرسکے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں