اسلام آباد(پی این آئی)نگران وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں رقوم کی منتقلی کے بین الاقوامی نیٹ ورک پے پال کے براہ راست پاکستان آنے کے لیے سازگار نہیں ہیں تاہم وہ مصر کے ماڈل پر ایک تیسرے فریق کے ذریعے پے پال کو پاکستان لانے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں اور ان کو توقع ہے کہ 60 دنوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
منگل کے روز صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ انہوں نے پے پال کو ایک کاروباری تجویز دی ہے جس کے تحت پاکستان میں فری لانسرز کے لیے دوسرے ملکوں سے رقوم کی منتقلی ممکن ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں بہت پر امید ہیں اور اگر پے پال نے پاکستان آنا ہوا تو وہ 60 دنوں تک آ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور بین الااقوامی نیٹ ورک سٹرائپ کے سنگاپور اور آئرلینڈ کے دفاتر سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور امید ہے کہ وہ بھی جلد پاکستان سے اپنی سروسز کا آغاز کر دیں گے۔ ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ پاکستان میں کام کرنے والے فری لانسرز کے ڈالرز اکاؤنٹس سے ڈالرز نکلوانے کی حد میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور اس بارے میں ایک ہفتے کے اندر حتمی فیصلے کے بعد وہ اپنے اکاؤنٹس سے 50 سے 100 فیصد کے درمیان ایک مقررہ حد تک ڈالرز نکلوا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالرز اکاؤنٹس سے ڈالرز نکلوانے کی موجود حد 35 فیصد ہے جو کہ ملک میں زرمبادلہ لانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا حکومت اس سلسلے میں واضح پالیسی بنا رہی ہے جو کہ ایک ہفتے تک نافذ ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فری لانسرز کا مطالبہ ہے کہ انہیں 100 فیصد تک رقم ڈالرز میں نکلوانے کی اجازت دی جائے تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ حکومت 50 سے 100 فیصد کے درمیان کسی ایک حد تک راضی ہو جائے گی جس کے بعد نہ صرف یہ کہ فری لانسرز کو کافی سہولت ہو گی بلکہ اس سے پاکستان میں زرمبادلہ بھی زیادہ آئے گا۔ اسی طرح فری لانسرز کے لیے ڈالرز ملک سے باہر بھجوانے کے عمل کو بھی آسان کرنے کے لیے ایک کارپوریٹ کریڈٹ کارڈ شروع کرنے کی تجوایز بھی زیر غور ہے۔ ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.6 بلین ڈالرز ہیں لیکن ان کا اصل حجم چار سے ساڑھے چار ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے10 ارب روپے کا گریجوایٹس کی ٹریننگ کا پروگرام لا رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی یونیورسٹیز سالانہ 48 ہزار آئی ٹی گریجوایٹس پیدا کر رہی ہے جن میں سے صرف دو سے ڈھائی ہزار کو نوکری ملتی ہے۔ جبکہ بیشتر آئی ٹی گریجویٹس اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ نوکری کر سکیں کیونکہ ان کی بنیادی تربیت نہیں ہوتی۔ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے میڈیکل کی طرز پر ایک ٹیسٹ متعارف کروا رہی ہے جس کے پاس کیے بغیر کسی گریجوایٹ کو ڈگری نہیں ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دو ماہ بنیادی تربیت بھی گریجوایٹس کے لیے لازمی ہوگی جو ان کی یونیرسٹیز پیشہ ورانہ تربیتی ادارے نیوٹیک اور بین الااقوامی سافٹ وئیرز کمپنیوں کی مدد سے فراہم کریں گی۔
اس پروگرام کے تحت ابتدائی طور پر 16 ہزار طلبا کو تربیت فراہم کی جائے گی اور دو سال میں یہ تعداد ایک لاکھ تک بڑھائی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت حکومت نے ایچ ای سی اور نیوٹیک کے لیے 10 ارب روپے کا فنڈ مختص کیا ہے جس میں سے ایک ارب روپے نیوٹیک کو دیے جائیں گے۔ ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ یہ تربیت حاصل کرنے والا ہر گریجوایٹ سالانہ 25 ہزار ڈالر کمانے کے قابل ہو گا اور اگر ابتدائی طور پر تربیت لینے والے ایک لاکھ آئی ٹی ایکسپرٹس یہ رقم کمائیں تو وہ مجموعی طور پر سال کے 5 ارب ڈالر کمائیں گے۔ ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ حکومت 15 لاکھ فری لانسرز کو دفاتر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے نجی جائیدادوں کے مالکان کو ای مراکز کے قیام کی غرض سے ایک لاکھ روپیہ فی نسشت قرضہ فراہم کرے گی اور اس قرضے پر عائد ہونے والا سود وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ادا کرے گی۔ دو سال میں ایسے پانچ ہزار ای مراکز کے قیام کے لیے 50 ارب روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ملک میں آئی ٹی اور ٹیلی کام کے سیکٹر کے فروغ کے لیے انویسٹرز کا ایک 100 ملین ڈالرز کا ایک فنڈ بنا رہی ہے جس میں حکومت تین ارب روپے ادا کرے گی۔ ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ ملک میں موبائل فون سروس کی بہتر کوالٹی کی فراہمی کے لیے تمام کمپنیوں کے درمیان انفراسٹرکچر شیئرنگ اور نیشنل رومنگ پالیسی پر اتفاق ہو گیا ہے اور اگلے ماہ سے ملک کی تمام ہائی ویز پر ہر جگہ موبائیل فون چلیں گے اور جہاں ایک کمپنی کی سروس نہیں ہو گی وہاں موبائل فون خود بخود دوسری کمپنی کے نیٹ ورک پر منتقل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون سروس کوالٹی مزید بہتر بنانے کے لیےحکومت اپنا 600 میگا ہرٹز کا سپیکٹرم نیلام کرنے جا رہی ہے ہے اور اس سلسلے میں درپیش قانونی رکاوٹوں کا مسئلہ جو ایس آئی ایف سی میں بھی زیر بحث آیا ہے جلد ختم کر دیا جائے گا۔ قانونی مسائل کے خاتمے کے لیے ٹیلیکام ٹربیونلز بنائے جائیں گے اور ایک ایڈوائزری کمیٹی کے ذریعے بیرونی کنسلٹنٹس کو لایا جائے گا جو 10 ماہ میں یہ کام مکمل کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے لیے اپنا سافٹ ویئر خود بنا یا ہے اور وہ یہ نادرا اور پی ٹی سی ایل کی مدد سے چلائے گا بھی خود ہی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ موبائل فون مینوفیکچررز کے لیے 3 فیصد کا ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ الاونس شروع کیا جا رہا ہے جو پاکستان میں موبائل فون کی تیاری میں اضافے میں مدد دے گا۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون کمپنیوں سے فون سیٹ سم کارڈ کے ساتھ قسطوں پر دینے کے بارے میں بھی بات ہو گئ ہے اور یہ سروس بھی 60 دنوں میں شروع ہو جائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں