کراچی ۔۔ یونی لیور اور لوریل کی سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر مشرف حئی نے کہا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اور ٹریڈ ایسوسی ایشنز میں خواتین کی نمائندگی صنفی کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے کیونکہ صنفی تعصب کی وجہ سے خواتین کا آگے آنا مشکل ہوتا ہے۔یہ بات انہوں نے گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان (جی سی این پی) کے زیر اہتمام نیشنل جینڈر ایکویلٹی کانفرنس“ سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر تے ہوئے کہی۔کانفرنس سے صدر جی سی این پی مجید عزیز،ویمن چیمبرز کونسل کی چیئرپرسن حنا منصب خان، گز جرمنی کی نمائندہ یولیا بازینووا نے خطاب کیا۔ مشرف حئی نے معروف فلاٹیلسٹ عارف بالگام والا کی جانب سے خواتین کے حوالے سے ڈاک ٹکٹوں کے ڈسپلے کی نقاب کشائی کی اور میڈل دیا جنہوں نے اپنے ایک ڈاک ٹکٹ کا ڈیزائن بھی پیش کیا جسے خواتین کے عالمی دن 2024 کے موقع پر جاری کرنے کے لیے پاکستان پوسٹ آفس سے قبول کیے جانے کی توقع ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ کئی ممالک کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹوں میں خواتین کے کلیکشن کو عوامی طور پر پیش کیا گیا۔آئی ایل او بیٹر پروگرام کی سربراہ کیرولین بیٹس اور کے سی سی آئی کی وومن انٹرپرینور سب کمیٹی کے چیئرپرسن درشہوار کو بھی میڈل دیا گیا۔
مشرف حئی نے خواتین شرکاء کو مشورہ دیا کہ ترقی اور سبقت حاصل کرنے کے لیے خواتین کے لیے تین اہم خصوصیات ضروری ہیں جن میں خواتین کو ایک مقصد کے تحت خود پر اور اپنے پیشوں یا کیریئر پر اعتماد ہونا چاہیے نیز وہ کسی بھی مشکل کا ڈٹ کر سامنا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے کیریئر میں ماتحت خواتین کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں اور آج خواتین کی ایک بڑی تعداد کاروباری اداروں میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔
گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان کے صدر مجید عزیز نے اپنے خیرمقدمی کلمات میں کہا کہ کانفرنس کا موضوع پاکستان کے میساجنسٹک ایکوسسٹم کو ختم کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک متوازن کاروباری ماحولیاتی نظام کی وکالت کرنا ہے۔انہوں نے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز میں اپنی چار دہائیوں کی شمولیت کے دوران یہ کہنے کی طاقت سیکھی کہ میں کر سکتا ہوں اور انہیں امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین بھی یہ کہیں گی کہ وہ کر سکتی ہیں۔انہوں نے کے سی سی آئی، ایمپلائرز فیڈریشن پاکستان اور جی سی این پی میں اپنی قیادت کی بہت سی مثالیں بھی بیان کیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی روایت میں عورت کی ایک آزاد شناخت ہے وہ اپنے طور پر ایک ذمہ دار فرد ہونے کے علاوہ وہ اپنی اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتی ہے۔خواتین کو تعلیم کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کو حاصل ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے امتیوں میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ہوں اور بہترین بیویاں وہ ہیں جو اپنے شوہروں کے لیے بہترین ہوں اور بہترین عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہروں کے کام میں معاونت کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج قانون کے مطابق بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کم از کم ایک خاتون کا ہونا ضروری ہے۔ای ایف پی کے 20 رکنی بورڈ میں 5 خواتین ہیں۔ یہ عمل اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے 2017 میں ای ایف پی کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔
ویمن چیمبرز کونسل کی چیئرپرسن حنا منصب خان نے کہا کہ خواتین کو اپنے حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اب وہ بہت عزت کما رہی ہیں تاہم یہ امر باعث افسوس ہے کہ خواتین کی کامیابیوں کے باوجود پاکستان صنفی مساوات کے عالمی انڈیکس میں 187 ویں نمبر پر ہے۔گزجرمنی کی نمائندہ یولیا بازینووا نے بتایا کہ گز پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں بہت زیادہ متحرک ہے جس کی توجہ مزدور، سماجی اور ماحولیاتی معیار پر ہے نیز صنفی مساوات، خواتین کے روزگار اور خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبے میں 100کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔گز جرمنی صنفی مساوات اور خواتین کے روزگار کو فروغ دینے کے لیے صنعتوں تک پیغام کو مزید پھیلانے کے لیے نئے پروگرام اور منصوبے بھی متعارف کروا رہا ہے۔
کانفرنس میں 4 پینلسٹ یونیورسٹی آف کراچی کے ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ کی ڈاکٹر عظمیٰ شجاعت، افرادی قوت کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کی سی ای او صدف حاطف، بینک اسلامی میں خواتین کی ترقی کی سربراہ عائشہ اشرف جانگڑا اور ہیڈ آف سسٹین ایبلٹی اے جی آئی ڈینم فرحین ظہور کے ساتھ معلوماتی پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں چاروں پینلسٹ نے اپنے شعبوں میں درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کے بارے میں بتایا اور مشورے، رہنمائی فراہم کی۔انہوں نے درخواست کی کہ نقاب پہننے والی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے بلکہ کارپوریٹ سیکٹر میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں