کراچی (پی این آئی) فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی) کی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین یونس ڈھاگا نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان پانچویں آبادی والا ملک ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے اور دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
اگرچہ پاکستان کے پاس متعدد پالیسیاں ہیں اور عالمی پالیسیوں کی توثیق بھی کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پالیسیوں کو نافذ یا لاگو نہیں کیا جاتا لہٰذا کمزوری کا عنصر ملک کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے۔یہ بات انہوں نے گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان کے زیر اہتمام ”نیٹ زیرو ریسرچ چیلنج 2023“ میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو انرجی سکیورٹی، فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑے مسائل کا سامنا ہے لہٰذا فوزل فیول پر انحصار کو تیزی سے کم کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔بہت بڑی عالمی فنڈنگ سمیت گرین کلائمیٹ فنڈ دستیاب ہے لیکن پاکستان فائدہ نہیں اٹھا رہا ہے۔ان شعبوں اور عمل درآمد پر وسیع تحقیق پر زور دیا جو موسمیاتی تبدیلی کو متاثر کرتے ہیں۔انہوں نے پیشکش کی کہ ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ اور گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان کو ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرنا چاہیے تاکہ شعور بیدار کرنے اور توجہ طلب حل فراہم کرنے کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تعاون اور مل کر کام کیا جا سکے۔
صدر گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان مجید عزیز نے اپنے خیرمقدمی کلمات میں کہا کہ ریسرچ چیلنج پراجیکٹ ایک نادر قدم ہے جہاں آئی بی اے اور این ای ڈی یونیورسٹی کے چار طلباء پر مشتمل دو ٹیموں کو چار کارپوریشنز میں سے ایک آرٹسٹک ملنرز، اے جی آئی ڈینم، پارکو اور روشن پیکجز کا دورہ کرنے کے لیے تفویض کیا گیا ہے۔ 2050 تک نیٹ زیرو اخراج کو حاصل کرنے میں ہر کمپنی کی پیش رفت اور مستقبل کے اقدامات پر تفصیلی کیس اسٹڈیز تیار کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اکیڈمیا اور کارپوریٹ سیکٹر کے درمیان مضبوط رابط پائیدار اور اثر انگیز کاروبار کے لیے بہت اہم ہے۔پاکستان کے نجی شعبے کو نیٹ زیرو کی منتقلی کی طرف بڑھنے اور کم کاربن معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے جی سی این پی پراجیکٹ مستقبل کے اس طرح کے طویل المدتی منصوبوں کی بنیاد بنے گا۔
مجید عزیز نے ایف پی سی سی آئی پر زور دیا کہ وہ اپنے ممبران کو آگاہی فراہم کرے۔ انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر کو مشورہ دیا کہ وہ ایک مشترکہ نقطہ نظر اپنائیں اور اس پر عمل درآمد کو اضافی لاگت کے طور پر سمجھنے کے بجائے سرمایہ کاری سمجھیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ای یو جی ایس پی پلس،یو این گلوبل کومپیکٹ، آئی ایل او انٹرنیشنل لیبر اسٹینڈرڈز اور عالمی خریداروں کی شرائط پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو اس پر عمل درآمد نہ ہونے سے پاکستانی برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔اس موقع پر ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں پاکستان بزنس کونسل کی نازش شیخا اور گِڈز جرمنی کے ثناء اللہ خان نے حصہ لیا اور اسے جی سی این پی کے کنسلٹنٹ دیباج عابدی نے ماڈریٹ کیا۔تقریب میں کارپوریٹ سیکٹر کے نمائندوں اور اکیڈمیا کے طلباء اور فیکلٹی نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں