نیشنل بینک آف پاکستان میں بڑے پیمانے پر پنشن فراڈ ہونے کا انکشاف

اسلام آباد(پی این آئی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نیشنل بینک آف پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے پنشن فراڈ کا سراغ لگا لیا۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایف آئی اے کی طرف سے نیشنل بینک کے گروپ چیف آڈٹ اور گروپ چیف ایف سی جی کو ہدایت کی گئی ہے کہ نہ صرف فراڈ سے متعلق ریکارڈ مہیا کیا جائے بلکہ اس فراڈ میں مبینہ طور پر ملوث 22افسران کی تفتیش کے لیے حاضری کو بھی یقینی بنایا جائے۔

ایف آئی اے کی طرف سے جن افسران کے متعلق کہا گیا ہے ان میں اسسٹنٹ نائب صدر رفعت نورین، اسسٹنٹ نائب صدر/منیجر محمد اصغر، افروز تبسم، ارشد اقبال خان، کنول منور، فیصل صمد، ارشد عزیز، فیصل قدیر شاہ، راشد علی خان، مزمل شاہ، نعمان قاضی، منصور رضا، سید محمد فرخ شاہد، ایوب خان، شاہ محمود احسان، بینا کنول، مصطفی خرم، اظہر الاسلام، سلمان طلعت، خورشید خان، عباس علی حاتم، سید عمران غنی اور ریاض الدین شامل ہیں۔ایف آئی اے کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ بینک کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کروڑوں روپے مالیت کے 8مبینہ پے آرڈرز جاری کیے گئے ہیں لیکن بینک کی طرف سے ان کے متعلق انکوائری رپورٹ مہیا نہیں کی جا رہی۔ ایف آئی اے کی طرف سے اسسٹنٹ نائب صدر سیدہ رفعت نورین، جو شعبہ پنشن و سرمایہ کاری کی سربراہ ہیں، کے خلاف انکوائری شروع کی گئی مگر بینک کی طرف انکوائری سے متعلق مکمل مواد مہیا نہیں کیا گیا۔ ایف آئی اے کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جنوری 2015ءسے ماہانہ پنشن کا مکمل آڈٹ کروائے۔رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر یہ لوگ گھوسٹ ملازمین کے ناموں پر طویل عرصے سے پنشن نکلوا رہے تھے۔ اب تک کی تحقیقات میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ خاتون افسر کی طرف سے اپنے بعض اعلیٰ افسران کو بھی ٹرانزیکشنز کی گئی ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں