ٹویوٹاکےبعد پاک سوزوکی موٹرز نے بھی پاکستان میں اپنا پلانٹ بند کر دیا، وجہ کیا بنی؟

اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی بڑی کمپنی سوزوکی نے خام مال کی عدم دستیابی کے پیش نظر اپنا پلانٹ عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس سے قبل گاڑیاں تیار کرنے والی ایک اور بڑی کمپنی ٹویوٹا نے بھی 30 دسمبر تک اپنا کار مینوفیکچرنگ پلانٹ بند کر رکھا ہے۔پیر کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے نام لکھے گئے خط میں پاک سوزوکی موٹرز نے 2 جنوری سے 6 جنوری تک 5 دن کے لیے کار اور موٹر سائیکل پلانٹ بند کرنے کی اطلاع دی ہے۔

 

 

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ کے ترجمان شفیق احمد شیخ نے بتایا کہ ’درآمدی پابندیوں کی وجہ سے پاک سوزوکی کے لیے یہ بہت نازک وقت ہے اور مستقبل میں بھی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ یہ پابندیاں مزید کتنے عرصے تک جاری رہیں گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ سامان کا روکا جانا، بندرگاہ پر رکے کنٹینرز کا کرایہ اورتین فیصد شرح سود واقعی ہماری صنعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ’ہمارے ڈیلرشپ اور وینڈرز بھی فروخت اور پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔‘انہوں نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ اس معاملے کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے انڈسٹری کے ساتھ بات چیت کریں۔کمپنی کے خط میں بتایا گیا ہے کہ فیصلہ سٹیٹ بینک کی جانب سے آٹو پارٹس اور سی کے ڈی کٹس کی امپورٹ پر مشروط اجازت نامے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ سوزوکی موٹرز کے مطابق سٹیٹ بینک کی پابندیوں کی وجہ سے کمپنی کے لیے کارسازی، موٹر سائکل پروڈکشن اور سپلائی چین متاثر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے کمپنی نےاس سال 16 اگست کو بھی اسٹاک ایکسچینج کو مطلع کیا تھا۔

 

 

کمپنی کے مطابق مشروط اجازت نامے کے باعث کمپنی کی درآمدی کنسائنمنٹ کی کلیئرنس بری طرح متاثر ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں کمپنی کی انوینٹری شدید متاثر ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ ٹیوٹا بنانے والی کمپنی انڈس موٹرز کا کاریں تیار کرنے والا پلانٹ پہلے ہی 30 دسمبر تک بند ہے۔حکومت نے اس سال مئی سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی روکنے اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے درآمدات کو روکنے یا ان میں تاخیر کی کوشش کی ہے۔اس اقدام سے وہ صنعتیں متاثر ہوئی ہیں جو اپنی مصنوعات کے خام مال یا تیاری لیے درآمدات پر انحصار کرتی ہیں۔ اس سے قبل بھی دونوں کمپنیاں اس سال اپنے پلانٹس عارضی طور پر بند کر چکی ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں