پاکستانی کرنسی نے بدترین ریکارڈ اپنے نام کر لیا

لاہور (پی این آئی) پاکستانی روپیہ ستمبر کے دوران سب سے بدترین کارکردگی والی کرنسی قرار۔ رواں ماہ کے 13 کاروباری ایام کے دوران روپے کی قدر میں 11 فیصد سے زائد کمی ہو چکی یعنی ملکی کرنسی کی قدر میں مجموعی طور پر 24 روپے سے زائد کی کمی ہوئی۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے بلوم برگ کے چیف ایمرجنگ مارکیٹس اکانومسٹ زیاد داود کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کرنسی ستمبر میں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں اب تک بدترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی رہی ہے، کیونکہ جی سی سی ممالک سے رقم اب تک نہیں آئی، اور موصول ہونے کی کوئی ٹائم لائن بھی نہیں ہے۔

 

 

واضح رہے کہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اونچی اڑان رکنے کا نام نہیں لے رہی، انٹربینک میں ڈالر ملکی تاریخ کی سب سے بلند ترین سطح کو چھونے سے صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ڈالر کی قیمت میں 56 روپے کا مجموعی اضافہ ہوا تھا، جبکہ شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی موجودہ حکومت کے صرف 5 ماہ کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 56 روپے سے زائد مہنگا ہو چکا۔ان 5 ماہ کے دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر تقریباً 60 روپے مہنگا ہو چکا۔ بتایا گیا ہے کہ 5 ماہ کے دوران روپے کی بدترین مندی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ملک کے صرف بیرونی قرضوں کے حجم میں 7 ہزار 200 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ بدھ کے روز انٹربینک مارکیٹ میں ایک وقت پر ڈالر 240 کی حد کو عبور کر کے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو گیا تھا، بعد ازاں قیمت میں کچھ کمی ہوئی اور ٹریڈنگ کے اختتام پر ڈالر 239 روپے 65 پیسے پر بند ہوا ۔جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 245 روپے رہی ۔ واضح رہے کہ حکومت اور معاشی ماہرین کا دعویٰ تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے کے بعد ڈالر کی قیمت کم ہو جائے گی، تاہم پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی قسط موصول ہونے کے بعد بھی 3 ہفتوں میں ڈالر تقریبا 21 روپے مہنگا ہو چکا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں