اسلام آباد (پی این آئی )بھارت کا مرکزی بنک سٹیٹ بنک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا ۔تفصیلات کے مطابق ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔نجی ٹی وی ٹوئنٹی فور نیوز کے مطابق اجلاس میں قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھوڑ کر جانے والے ہندوں اور سکھوں کی پراپرٹی کی مالیت کا جائزہ لیا گیا ۔آڈٹ حکام کے مطابق 1947 سے مرکزی بنک آف انڈیا نے
پاکستان کو یہ رقم ادا نہیں کی جبکہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ 1947 سے اس رقم کا تنازع چل رہا ہے جو حل نہیں ہوا۔اس موقع پر رانا تنویر نے کہا کہ اسٹیٹ بنک کا اپنا یہ حال ہے تو ریگولیٹر کی ذمہ داری کون ادا کرے گا۔چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ اسٹیٹ بنک حکام کیا کر رہے؟ حکومتی سطح پر اقدامات کیوں نہیں ہوئے؟ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک نے بتایا کہ یہ رقم کم تھی جو بڑھ کر 456 ملین روپے تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری جانب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے بغیر ٹینڈر کروڑوں روپے کی ادویات کی خریداری کا نوٹس لیتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو انکوائری کرنے کی ہدایت کی ہے،کمیٹی نے نیشنل بنک میں آڈٹ کے حوالے سے درپیش مشکلات فوری حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین رانا تنویر حسین کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلاس میں کمیٹی اراکین کے علاؤہ سیکرٹری خزانہ نیشنل بنک،ہاوس بلڈنگ،اڈٹ نیب اور ایف آئی اے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2017/18 میں منافع جبکہ اگلے سال خسارے میں چلے گئے اس موقع پر اسٹیٹ بنگ کے ڈپٹی گورنر نے بتایا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنی بیلنس شیٹ بنانی پڑتی ہے اور اس میں اپنے تمام اثاثے ظاہر کئے جاتے ہیں چیرمین کمیٹی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی اپنی حالت زار درست نہیں ہے وہ دیگر اداروں کو کس طرح درست کرسکے گی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ یہ رقم قیام پاکستان کے وقت کتنی تھی جس پر حکام نے بتایا کہ اس کا حساب معلوم نہیں ہے۔حکام نے بتایا کہ مالی سال 2018/19 کے دوران ڈالرز کے ریٹ میں اضافے اور روپے کی تنزلی کی وجہ سے506 ادب روپے روپے تک کا خسارہ ہوا ہے کمیٹی نے معاملے کو موخر کرتے ہوئے آگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے حکام نے بتایا کہ نیشنل بنک کی جانب سے منافع کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے حکام نے بتایا کہ بنکوں پر عائد جرمانوں میں کمی کی وجہ سے منافعوں میں کمی آئی ہے حکام نے بتایا کہ مالی سال 2019/20 میں اسٹیٹ بینک کا منافع 11سو ارب روپے تک پہنچ گیاہے اس موقع پر نیشنل بنک کے صدر نے بتایا کہ اس وقت 1500کے قریب برانچز پورے ملک میں ہیں اور ہر سال بھرتیاں کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ نیشنل بنک میں صارفین کوجدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں آڈٹ حکام نے بتایا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے نیشنل بنک میں تعیناتیوں پر اپنے شبہات کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے پی اے سی کی جانب سے ہدایات کے باوجود ہمیں ریکارڈ نہیں دیا جا رہا ہے چیرمین کمیٹی نے کہا کہ ماضی میں نیشنل بنک اپنے حسابات کا آڈٹ نہیں کراتا ہے اور بہت زیادہ شکایات سامنے آ? ہیں جس پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ آبھی تک ریکارڈ کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا ہے جس پر نیشنل بنک حکام نے بتایا کہ اس وقت بنکوں کی جانب سے مکمل تعاون کیا جاتا ہے۔ حکام نے بتایا کہ مختلف ممالک میں غیر منافع بخش بنکوں کو بند کیا جارہاہے انہوں نے کہا کہ آذربائجان کے ساتھ کاروبار بڑھنے کی وجہ سے وہاں پر پاکستانی بنک کی موجودگی ضروری ہے کمیٹی نے نیشنل بنک کے آڈٹ کے حوالے سے کمیٹی کو مسلسل آگاہ کرنے کی ہدایت کی آڈٹ حکام کی جانب سے اسٹیٹ بینک میں بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے اسیٹ بنک حکام نے بتایا کہ
کمپنی سیکرٹری کو گزشتہ تجربے کی بنیاد پر تنخواہ دی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ارم صبا کو پی ایچ ڈی کے بعد ڈیپوٹیشن پر بھجوایا گیا ہے جس پر کمیٹی نے اگلے 20دنوں میں ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کیاسٹیٹ بینک کی جانب سے 3کروڑ38 لاکھ روپے سے زائد کی ادویات بغیر ٹینڈر خریداری پر حکام نے بتایا کہ ڈریپ کی جانب سے مقررہ ادویات کی قیمتوں کے مطابق بغیر ٹینڈر ادویات خریدی جاتی ہیں چیرمین کمیٹی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو پیپرا قوانین پر عمل درآمد کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ریگولیٹری ادارہ ہونے کے باوجود اپنا ریکارڈ نہیں رکھتا ہے ڈپٹی چیئرمین سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیار نہیں ہے کمیٹی نے آڈٹ حکام کو معاملے کی انکوائری کرکے 30دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں