اسلام آ باد (آئی این پی ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل کو تیز کرنے کے لئے صارفین کو رقم کی منتقلی پر انٹر بینک ٹرانسفر چارجز کو ختم کرنے کی سفارش کر دی اور اس پر عملدرآمد کیلئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی،کمیٹی نے ایف بی آر سے ڈیٹا ہیک ہونے سے متعلق معاملہ پر تین روز میں جواب طلب کرلیا ، کمیٹی نے آ ڈیٹر جنر ل آ ف پاکستان کو آ ڈٖٹ نہ کرانے والے سرکاری اداروں کی فہرست پیش کرنے کی بھی ہدایت کردی جبکہآ ڈیٹر جنر ل آ ف پاکستان کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کورونا کے باوجود ادارے نے اپنے آڈٹ کا کام مکمل کیا ،گزشتہ سال کی 401آڈٹ رپورٹس جاری کیں ،آڈٹ رپورٹس پر اس سال 409ارب روپے کی ریکوری کی ہے ، گزشتہ پانچ سال میں 782ارب روپے کی ریکوری کی گئی ،26ہزار آڈٹ اعتراضات پر ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا، اوگرا ، نیپرا ، پی ٹی اے، نادرا اور ارسا ہم سے آڈٹ نہیں کرواتے ،نیشنل بینک سرکاری فیس کئی ماہ اسٹیٹ بینک میں جمع نہیں کرواتا ، قانون کے تحت نیشنل بینک کو حکومت کا فنڈایک دن میں اسٹیٹ بینک میں جمع کرانا لازمی ہے ۔منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت ہوا، کمیٹی نے سیکرٹری خزانہ عدم حاضری پر اظہار برہمی کیا، اجلاس کے دوران سیاسی طور پر ایکسپوزڈ پرسنز کے بینک اکائونٹ کا معاملہ زیر غور آیا،کمیٹی ارکان نے کہاکہ سیاست دانوں کو اکائونٹ کھولنے میں مہینے لگ جاتے ہیں، اکائونٹ کھلوانے جائیں تو کئی سوالات کئے جاتے ہیں، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ یہ صرف سیاست دانوں کیلئے نہیں بلکہ گریڈ 20سے اوپر افسران بھی شامل ہیں، سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ نام ہمارا استعمال کیا جاناظلم ہے کیونکہ افسران بھی اس میں شامل ہیں، کمیٹی نے پولیٹیکل ایکسپوزڈ پرسنز کے خلاف ہونے والے کیسز کی تفصیلات طلب کرلیں، اجلاس کے دوران انٹر بینک ٹرانسفر چارجز کامعاملہ بھی زیر غور آیا،سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ بجٹ میں مکمل طور پر کہا گیا تھا ٹرانسفر چارجز نہیں ہونگے، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ موبائل بینکنگ کی ترویج کیلئے کورونا کے باعث ٹرانسفر پر چارجز لگائے تھے، 25ہزار روپے سے اوپر ماہانہ ٹرانسفر پر 200روپے چارجز ہونگے، 25ہزار روپے تک ٹرانزیکشن پر کوئی چارجز نہیں ہونگے، سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ بینکنگ ٹرانزیکشن پر کوئی چارجز نہیں لینے چاہیے، معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے ٹرانزیکشن پر چارجز نہیں ہونے چاہیے، سینیٹر مصدق ملک نے کہاکہ بینکوں کو چاہیے کہ عوام کو مراعات دیں اس پر مقابلہ ہونا چاہیے، اسٹیٹ بینک آخر کیوں اس میں کیوں انٹرسٹ لے رہا ہے، کمیٹی نے انٹر بینک ٹرانسفر چارجز کو ختم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے انٹر بینک ٹرانسفر چارجز کو ختم کرنے پر عملدرآمد کیلئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی، اجلاس کے دوران قائم مقام آڈیٹر جنرل آف پاکستان غلام محمد میمن نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان کے تمام اداروں کا آڈٹ کرتا ہے ،بیرون ملک سے ملنے والی امداد کا بھی آڈٹ کرتے ہیں، آڈیٹر جنرل کو مزید خود مختار بنانے کیلئے نیا قانون منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو بھجوایا ہے ، کامل علی آغا نے کہاکہ آڈیٹر جنرل نے گردشی قرض پر مستند ترین رپورٹ دی ،سینیٹرطلحہ محمود نے استفسار کیا کہ کون سے سرکاری ادارے آڈیٹر جنرل سے آڈٹ نہیں کرواتے ، اے جی پی حکام نے بتایا کہ اوگرا ، نیپرا ، پی ٹی اے، نادرا اور ارسا ہم سے آڈٹ نہیں کرواتے ، صوبائی حکومتوں کے بینک ہم سے آڈٹ نہیں کرواتے ،نیشنل بینک سرکاری فیس کئی ماہ اسٹیٹ بینک میں جمع نہیں کرواتا ، قانون کے تحت نیشنل بینک کو حکومت کا فنڈایک دن میں اسٹیٹ بینک میں جمع کروانا لازمی ہے ، نیشنل بینک کے آڈٹ سے اس طرح کی چیزوں کو روکا جا سکتا ہے ، چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ جو ادارے آپ سے آڈٹ نہیں کرواتے انکی لسٹ کمیٹی کو فراہم کریں ، اے جی پی حکام نے بتایا کہ کورونا کے باوجود ادارے نے اپنے آڈٹ کا کام مکمل کیا ،گزشتہ سال کی 401آڈٹ رپورٹس جاری کیں ،آڈٹ رپورٹس نے اس سال 409 ارب روپے کی ریکوری کی ہے ، گزشتہ پانچ سال میں 782ارب روپے کی ریکوری کی گئی ،26 ہزار آڈٹ اعتراضات پر ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا، اجلاس کے دوران ایف بی آر کا ڈیٹا کا ہیک ہونے کا معاملہ بھی زیر غور آ یا،سینیٹر فیصل سبزواری نے کہاکہ ایف بی آر کا ڈیٹا ہیک ہوا ہے ایف بی آر سے پوچھا جائے، جس پر ایف بی آ ر کے ممبر پالیسی آئی آر نے بتا یا کہ اس پر ممبر آئی ٹی ایف بی آر بتا سکتے ہیں، کمیٹی نے ایف بی آر سے ڈیٹا ہیک ہونے سے متعلق تین روز میں جواب طلب کرتے ہوئے کمیٹی نے سینیٹ سیکرٹریٹ کو چیئرمین ایف بی آر کو خط لکھنے کی ہدایت کی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں