اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )ٹیوٹا انڈس موٹرز نے کی جانب سے یارس سیریز کے تمام ماڈلز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق مطابق یارس کے تمام ویرئنٹس کی قیمتوں میں 40 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا، جس کے بعد سب سے اونچے ویرئنٹ 1.5 اے ٹی آئی وی- ایکس سی وی ٹی کی قیمت تقریبا 30 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔
یارس کے 1.3 جی ایل آئی -ایم ٹی جواس ماڈل میں سب سے سستی دستیاب گاڑی تھی، اس کی قیمت 24 لاکھ 69 ہزار سے بڑھ کر 25 لاکھ 9 ہزار ہوچکی ہے۔دوسری جانب ڈالر مہنگا ہونے کے باعث رواں سال فروری مارچ میں لانچ ہونے والے ’ٹویوٹا یارس‘ کار کی قیمت میں روڈ پر آنے سے پہلے ہی ایک لاکھ 26 ہزار روپے کا اضافہ ہوگیا۔نجی ٹی وی سماء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹویوٹا کرولا بنانے والی کمپنی انڈس موٹر نے 20 مارچ کو ٹویوٹا یارس لانچ کیا تو اس کے بیسک ماڈل کی قیمت 23 لاکھ 49 ہزار روپے جبکہ ایڈوانس ماڈل کی قیمت 28 لاکھ 9 ہزار روپے مقرر تھی۔ جب کمپنی نے آرڈر لینا شروع کیا تو اس وقت ڈالر کی قیمت 158 پاکستانی روپے تھی۔لانچ ہونے کے 24 دن بعد انڈس موٹر کمپنی نے تمام ڈیلرز کو ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث تمام کاروں کی قیمت میں 5 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ مارچ 27 کو ڈالر 169 روپے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ بلآخر اسٹیٹ بینک کو مداخلت کرنا پڑی اور محض 2 روپے کم ہوکر 167 پر آگیا۔ ٹویوٹا یارس کی قیمت میں 5 فیصد اضافہ ایک لاکھ 26 ہزار روپے بنتا ہے۔جب بھی ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے کار بنانے والی کمپنیاں کاروں کی قیمت بڑھا دیتے ہیں کیوں کہ کاروں میں استعمال ہونے والے 40 سے 50 فیصد پارٹس امپورٹ ہوتے ہیں اور ان کی قیمت ڈالر میں ادا کی جاتی ہے۔ انڈس موٹر نےتمام ماڈلز کی قیمت بڑھائی ہے۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوسری کمپنیاں بھی قیمتوں میں
اضافہ کریں گی۔سیکورٹیز انالیسٹ عدنان سمیع شیخ کا کہنا ہے روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ کار کی صنعت سے وابستہ ہر فریق قیمت میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ صرف انجن ہی نہین بلکہ اسٹیل سے لیکر پلاسٹک اور ربڑ تک جو بھی چیز کار میں استعمال ہوتی ہے وہ امپورٹ کی جاتی ہے۔اس لیے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا مطلب کار کی قیمت میں اضافہ ہے۔
ٹویوٹا یارس کی قیمت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب پورے پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے نافذ لاک ڈاؤن کے باعث کار بنانے والے کارخانے بند پڑے ہیں۔ کاروں کی سیل تقریبا 70 فیصد گرچکی ہے اور معیشت کی صورتحال حال تاریک ہے۔ ماہرین پہلے ہی معاشی گراوٹ کے بارے میںخبردار کر چکے ہیں۔انڈس موٹر کمپنی کے
چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے سماء منی کو بتایا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کار کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہم چلا نہیں پائیں گے۔ جن لوگوں نے آرڈرز کے ساتھ پوری ادائیگی کر دی ہے ان پر قیمتوں کے اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا۔جب فیکٹریاں بند ہیں اور مارکیٹ 50 فیصد سکڑ گئی ہے تو قیمت میں اضافہ کیوں کیا۔ اس بارے مینانٹرمارکیٹ سیکورٹیز کے
ریسرچ ہیڈ سعد علی کا کہنا ہے کہ آٹو سیکٹر میں یہ ہوتا رہتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کا بوجھ براہ راست صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کارساز کمپنیوں کی پالیسی اپنے منافع کی حفاظت پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ قیمتیں کم کرکے سیل بڑھانے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ قیمتیں بڑھا کر منافع کا بڑا مارجن رکھتے ہیں۔کچھ عرصے سے آٹو سیکٹر دباؤ کا شکار ہے۔ ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے
ایک ریویو کے مطابق گزشتہ برس مارچ کے مقابلے میں اس سال مارچ میں کاروں کی سیل 70 فیصد کم رہی۔ اس دوران انڈس موٹر کی سیل بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں آدھی ہوگئی ہے جبکہ لاک ڈاون نے صورتحال مزید گھمبیر بنا دی ہے۔ انڈس موٹرز کے شیئرز 2017 میں عروج تک پہنچ گئے تھے جو اب آدھے سے بھی زیادہ سستے ہوگئے ہیں جبکہ ہونڈا اور سوزوکی کے شیئرز تین
برس پہلے کےمقابلے میں 6 گنا سستے ہوگئے ہیں۔مگر ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی وبا سے پہلے سیل بڑھ رہی تھی۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی کاروں کے سیل میں اضافہ موقع ہے کیونکہ مہنگائی میں بتدریج کمی ہورہی ہے اور آئندہ زری پالیسی میں شرح سود مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ نئے ماڈلز کے مارکیٹ میں آنے سے صارفین کی دلچسپی بڑھے گی۔ایک رسک فیکٹر مگر یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے سے کاروں کی قیمت بھی بڑھے گی جبکہ معاشی سست رفتاری کی وجہ سے لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس لئے کاروں کی سیل کو معمول پر آنے میں شاید کچھ زیادہ عرصہ لگ جائے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں