اسلام آباد (پی این آئی) گذشتہ کئی عشروں سے تیل کی آمدنی پر انحصار کرنے والے عربوں کے تیل کا زمانہ ختم ہونے جا رہا ہے۔ان کے لیے اپنے بجٹ پورے کرنا مشکل ہو گیا ہے۔اگر تیل 157 ڈالر فی بیرل ہو جائے تب الجزائر اپنے اخراجات پورے کر سکتا ہے۔عمان کے لیے 87 ڈالر فی بیرل قیمت کافی ہے۔40 ڈالر فی بیرل
کی موجودہ قیمت پر کوئی عرب ملک ماسوائے قطر کے متوازن بجٹ نہیں بنا سکتا۔اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق کچھ ملک سخت اقدامات کر رہے ہیں۔مئی میں الجزائر حکومت نے سرکاری نصب تک لانے کا اعلان کیا۔عراقی وزیراعظم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی چاہتے ہیں۔عمان قرض لینے پر مجبور ہو گیا۔کویت میں بدترین حالات ہیں،کویت کا خسارہ جی ڈی پی کے 40 فیصد تک پہنچ سکتا ہے جو کہ دنیا میں بلند ترین ہے۔سعودی عرب نے سیلز ٹیکس تین گنا بڑھا دیا مگر پھر بھی اسے 110 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔کورونا کی وجہ سے سفری اور تجارتی سرگرمیوں میں کمی،تیل کی قیمت کو انتہائی کم سطح پر لے آئی۔بحالی کے بعد قیمت قدرے بڑھی مگر طلب میں اضافہ نہ ہو سکا۔دوسری جانب عالمی معیشتیں توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب بڑھ رہی ہیں۔فاضل رسد اور متبادل ذرائع کے ساتھ مسابقت کا مطلب ہے کہ مستقبل میں تیل کی عالمی قیمت میں اضافے کا امکان نہیں،اور تیل سستا ہی رہے گا۔تیلی کی عالمی مارکیٹ میں حالیہ ہلچل دراصل مستقبل کی ایک جھلک ہے۔اس صورتحال سے زیادہ متاثر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ہوں گے۔عرب رہنما جانتے تھے کہ تیل کی بلند قیمتیں ہمیشہ کے لیے نہیں۔اس لیے چار سال قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن 2030 منصوبہ تیار کی۔جس کا مقصد تیل کا انحصار ختم کرنا ہے۔دیگر ہمسایوں کے لیے الگ ویژن تھے۔سعودی ولی عہد کے کنسلٹنٹ کے مطابق 2020ء میں ہی 2030 بن گیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ملکوں کی تیل کی آمدنی 2012 میں دس کھرب ڈالر سے زائد تھی۔2019ء میں کم ہو کر 575 ارب پر آ گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں